بچے،قرآن اور ہماری ذمہ داری
(سیدعبدالوہاب شیرازی) اسلام آباد
بچے اورقرآن، ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے، یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دنیا میں قرآن کے ماہرین بچپن ہی سے قرآن سے جڑے ہوئے تھے۔ جن بچوں کو ان کے والدین نے چھوٹی عمر میں قرآن سے جوڑا ، ان بچوں کا قرآن سے تعلق ساری زندگی مضبوط رہا، یہاں میں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بچپن سے قرآن کے ساتھ جوڑنے سے مراد یہ نہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے، یعنی بچے کو سکول سے واپس لاکر آدھے گھنٹے کے لئے مسجد کے قاری صاحب کے حوالے کردینا، جب کہ وہ بچہ انتہائی تھکاوٹ کا شکارہوتا ہے، اور پھر والدین نے بھی ساری ذمہ داری قاری صاحب ڈال رکھی ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں اور والدین کبھی قاری صاحب سے ملاقات تک نہیں کرتے۔
اگر چہ موجودہ دور میں الحمدللہ حفظ قرآن کا رجحان زیادہ ہوا ہے لیکن پھر بھی عموما یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کسی ایک بچے کو حفظ کروا کر دس افراد کی بخشش کے پرانے پر خود ہی دستخٰط کرکے بیٹھ جاتے ہیں، یعنی اب جو بھی ہوہم بخشے بخشائے ہیں۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کو پاکیزہ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، بچہ مدرسے سے آکر گھر میں موجود شیطانی آلات سے بھی مستفید ہورہا ہوتا ہے، فلمیں ڈرامے اور کارٹون کی شکل میں دجالی ہدایات کے انجکشن اس کے قلب ودماغ پر لگتے رہتے ہیں۔
حفظ کے رجحان میں اضافے کے باوجود اب بھی نوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں جو بچے کو بچپن کی عمر میں قرآن سے نہیں جوڑتے بلکہ جدیدزبانیں اور علوم ہی بچپن میں پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو بچے بچپن میں حفظ کرلیتے ہیں ان کا حافظہ دوسرے بچوں سے زیادہ قوی ہوتا ہے، چنانچہ اگر بچوں کو سب سے پہلے یعنی پانچ چھ سال کی عمر میں حفظ کروانا شروع کردیا جائے تو باقی چیزیں بعد میں بچہ بہت اچھی طرح سیکھ لیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بچے کو چھوٹی عمر میں جو چیز سکھائی جائے گی ساری عمر اسی چیز کی چھاپ اس کی عملی زندگی میں بھی نظر آئے گی۔یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا حالانکہ سات سال کے بچے پر ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی،ابھی تو مزید سات سال ہیں نماز فرض ہونے میں،یہ سارا ہتمام اسی وجہ سے ہے۔
طبرانی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ:اپنے نبی ﷺ کی محبت، اور ان کے اہل بیت کی محبت، اور قرآن کریم کی تلاوت، اس لئے کہ قرآن کریم کو یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سائے میں انبیاء اور منتخب لوگوں کے ساتھ اس روز ہوں گے جس روز اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔(تربیت الاولاد فی الاسلام،شیخ عبداللہ ناصح علوان)
مسلمان علماء تربیت نے بچوں کو قرآن کریم کی تلاوت اور رسول اللہ ﷺ کے غزوات کی تعلیم اور مسلمانوں کے عظیم قائدوں کے کارنامے بتلانے اور سکھلانے کے ضروری ہونے کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور جنگیں اسی طرح یاد کرایا کرتے تھے جس طرح انہیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے تھے۔
امام غزالی نے احیاء العلوم میں یہ وصیت کی ہے کہ بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
علامہ ابن خلدون نے مقدمہ ابن خلدون میں بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے اور یاد کرانے کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ مختلف اسلامی ملکوں میں تمام تدریسی طریقوں اور نظاموں میں قرآن کریم کی تعلیم ہی اساس اور بنیاد ہے، اس لئے کہ قرآن کریم دین کے شعائر میں سے ہے جس سے عقیدہ مضبوط اور ایمان راسخ ہوتا ہے۔
ابن سینا نے ’’کتاب السیاسۃ‘‘ میں یہ نصیحت لکھی ہے کہ جیسے ہی بچہ جسمانی اور عقلی طور سے تعلیم وتعلم کے لائق ہو جائے تو اس کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے کرنا چاہیے تاکہ اصل لغت اس کی گھٹی میں پڑے اور ایمان اور اس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ فضل بن زید نے ایک دیہاتی عورت کے بچے کو دیکھا اور بہت متعجب ہوا، اس عورت سے اس بچے کے بارے میں سوال کیا تو اس عورت نے کہا: جب اس بچے کی عمر پانچ سال ہو گئی تو میں نے اسے استاد کے حوالے کردیا، اور اس نے قرآن کریم یاد کرلیا، اور تلاوت وتجوید سیکھ لی، پھر اسے عمدہ اشعار یاد کرائے اور سکھائے اور اپنی قوم کے قابل فخر کارناموں کی تعلیم دی گئی، اور اس کے آباء واجداد کے کارنامے بتائے، جب وہ بلوغ کی عمر کو پہنچ گیا تو میں نے اسے گھوڑوں پر سوار کرایا اور وہ بہترین مشاق شہسوار بن گیا اور ہتھیار سے لیس ہو کر محلہ کے گھروں کا محافظ بن گیا اور مدد کے لئے پکارنے والوں کی آواز کی جانب متوجہ رہنے لگا۔
پہلے زمانے کے لوگ اپنے بچوں کی تربیت کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو جب اساتذہ کے ھوالے کرتے اور ان حضرات و سب سے پہلے جو مشورہ دیتے اور جس بات کی انہیں نصیحت کرتے وہ یہ تھی کہ ان بچوں کو سب سے پہلے قرآن کریم کی تعلیم دیں، اس کی تلاوت سکھائیں اور اسے انہیں یاد کرائیں تاکہ ان کی زبان درست ہو اور ان کی ارواح میں پاکیزگی وبلندی اور دلوں میں خشوع وخضوع پیدا ہو اور آنکھوں میں آنسو آئیں اور ان کے نفوس میں ایمان اور یقین راسخ ہو جائے۔