بچھو بوٹی

بچھو بوٹی کے حیران کن فوائد

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’فطرت کے حسن و جمال کی پہچان کا راستہ جنگل سے ہو کر گزرتا ہے‘‘۔ بلاشبہ جنگلات قدرت کی بہترین صناعی کا مظہرہیں۔ تا حد نگاہ سر سبز و شاداب پودے‘ درخت‘ پتے دیکھنے والے کو اپنے سحر میں گرفتار کر لینے کا ہنر رکھتے ہیں۔

اسے مقامات جہاں سبزہ ہو ا پنے اندر ایک عجیب سا سکون سموئے ملتے ہیں جنہیں کھوجنے والے ہر گز تہی داماں نہیں رہتے بلکہ جب بھی وہاں سے اٹھتے ہیں ذہنی و قلبی سکون کو ہمدم پاتے ہیں۔ پودوں اور سبزے کو دیکھ کر جہاں ایک فرحت بخش احساس ہوتا ہے وہی ان پودوں میں چھپی جڑی بوٹیاں اپنے اندر بے شمار فائدے سمیٹے ہوتی ہیں۔

قدرت کی تخلیق کردہ ہر شے میں حکمت کافرما ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ خود ساختہ طور پر پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں بے کار ہوتی ہیں اور لوگ انہیں فالتو تصور کر کے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ عام سمجھی جانے والی ان جڑی بوٹیوں میں بے پناہ افادیت چھپی ہے ،کہ اشیاء ضرورت کی تیاری سے امراض کے علاج تک استعمال ہوتی ہیں۔
قدیم وقتوں میں علاج جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا تھا۔ خطرناک سے خطرناک مرض کا علاج طبیب جڑی بوٹیوں کی مدد سے کرتے ۔ وقت گزرتا گیا اور جڑی بوٹیوں کے استعمال کی جگہ باقاعدہ مغربی طرز علاج نے لے لی۔ لیکن قدرتی اجزاء سے تیار کردہ دواؤں کی حیثیت مسلمہ ہے۔ بھلا خالص اور مصنوعی برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ آج کے دور میں اگر دوائی کو جانچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جہاں فائدہ دیتی ہیں وہیں ان کے نقصانات کی فہرست بھی لمبی ہے مگر قدرتی اجزا سے تیار کردہ ادویات کے فوائد،نقصانات پہ سبقت لے جاتے ہیں۔ ہر موسم میں میسر بچھو بوٹی اپنے اندر بے پناہ افادیت رکھتی ہے۔

یورپ‘ ایشیا‘ افریقہ اور امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ اس کی لمبائی عموماً 3 فٹ سے 7فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں کلاں اور خورد دونوں کا تعلق پودوں کے ایک ہی خاندان Urticaceae سے ہے۔ اس کے پتوں اور تنے پہ کانٹے نما چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں جو انسانی جسم کو چھو لیں تو شدید قسم کی خارش لگ سکتی ہے جس کا دورانیہ ایک روز سے بڑھ کر کئی روز پر محیط ہو سکتا ہے۔ بچھو بوٹی صدیوں سے دیسی ادویات‘ کھانے‘ چائے اور صنعتی خام مال کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔

بچھو بوٹی اقسام

کلاں اور خورد دونوں کا تعلق پودوں کے خاندان Urticaceae سے ھے۔ ادویاتی طور پر دونوں ایک دوسرے کا نعم البدل ھیں۔ ان کے پتوں پر باریک خراشدار کانٹے پائے جاتے ھیں جو اگر بدن پر لگ جائیں تو درد جلن اور خارش ھوتی ھے جس کی وجہ سے اس کو بچھو بوٹی کہتے ھیں اور انگریزی میں اس کو  stinging nettle کہتے ہیں۔
یہ پودے نمناک اور نرم زمین میں پائے جاتے ھیں اور بڑے patches میں ھوتے ھیں۔ Urtica dioica کا پودا Urtica urens سے بڑا ھوتا ھے۔ Urtica dioica کے پودے سال بھر مل جاتے ھیں جبکہ Urtica urens کے پودے صرف ایک سیزن میں ملتے ھیں۔ دونوں اقسام کے پتے دبیز لٹکے ھوے کناروں سے کٹاو دار اور دل کی شکل کے ھوتے ھیں۔ گرمیوں مبں دونوں اقسام پر سفیدی مائل سبز غیر واضع پھول پائے جاتے ھیں۔ ان کے پھول بیج پنے اور جڑ میں مختلف کیمیائی اجزاء پائے جاتے ھیں اس لیے ان کو مختلف امراض میں استعمال کرایا جاتا ھے۔

اجزائے ترکیبی اور Machanism of actions.

بچھو بوٹی میں کچھ غذائیت بھی بائی جاتی ھے جس کے لیے اس کو پکا لیا جاتا ھے جس سے اس کے کانٹے ختم ھو جاتے ھیں۔ ان کانٹوں میں Histamine, formic acid, acetylcholine, acetic acid, butyric acid , leukotrienes , 5-hydroytryptamine اور دیگر خراش دار اجزاء پائے جاتے ھیں۔ ان کانٹوں سے چھونے پر جلن ھوتی ھے اور متاثرہ جگہ پر سرخ ددوڑے بن جاتے ھیں جن کی تکلیف چند لمحوں سے چند دن میں ختم ھو جاتی ھے۔
بچھو بوٹی
ان کے extracts اس ضرر سے پاک ھوتے ھیں اور خشک ھونے کے بعد بھی یہ خراشدار نہی رہتی۔ بچھو بوٹی کے پانی میں حل پزیر ھونے والے اجزاء میں سے lectins اور polysaccharides بہت اہمیت کے حامل ھیں اور prostate gland کی enlargement میں بہت مفید ھیں لیکن پانی میں غیر حل پزیر اجزاء کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ورم غدہ قدامیہ سادہ benign prostatic hyper plasia میں بچھو بوٹی کی جڑ میں پائے جانے والا ایک جز lignans Mکی اہمیت testosterone ہارمون پر اثر پزیری کی وجہ سے ھے۔
بچھو بوٹی میں پائے جانے والے steroidol compounds مثلاّ Stigma sterol اور campesterol غدہ قدامیہ میں sodium/potassium کے توازن کو درست کر کے ورم کو گھٹانے میں معانت کرتے ھیں۔ بچھو بوٹی کی جڑ میں پائے جانے والے lectin کا T-lymphocyte پر اثر کسی بھی دوسرے پودے میں پائے جانے والے lectin سے بالکل مختلف ھے۔ Prostate gland کے امراض میں عموماَ testosterone, dihydrotestosterone اور estrogen کی مشارکت پائی جاتی ھے۔ testosterone ایک خامرہ aromatase کی وجہ سے estrogen میں تبدیل ھونا شروع ھو جاتا ھے۔
مردوں میں عمر کی زیادتی میں aromatase کی افزائش زیادہ ھو جاتی ھے جس کی وجہ سے testosterone تبدیل ھو کر estrogen کی مقدار بڑھانا شروع کر دیتا ھے جس سے Prostate gland بڑھ جاتا ھے۔ ایلوپیتھی میں بھی prostate gland کے ورم کو کم کرنے کے لیے aromatase کی افزائش کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ھیں۔
بچھو بوٹی کی جڑ میں پائے جانے والا 9-hydroxy-10-trans-12-cis-octadeacdienic acid(HOA) خاص طور پر aromatase کی افزائش کو کنٹرول کرتا ھے۔ بچھو بوٹی میں پائے جانے والے polysaccharides اور caffeic malic acid میں دافع ورم خصوصیات پائی جاتی ھیں اور پورے پودے کے extract میں رسولیوں کو تحلیل کرنے کی خصوصیت بھی پائی جاتی ھے۔
Clinical Indications

امراض گردہ و مثانہ۔

بچھوبوٹی پر تحقیق کے نتیجے میں مردوں میں ورم غدہ قدامیہ کو بڑھنے سے روکنا ایک اہم دریافت ھے۔ اس کے پتے urinary tract infection اور سنگ گردہ و مثانہ کو نکالنے کے لیے مفید ھے۔
Nettle tea in glass. Fresh and dry nettle.

وجعع المفاصل- نقرس اور اعصابی درد۔

جوڑوں کے درد میں بچھو بوٹی کو مقامی طور پر استعمال کرانے کا رواج زمانہ قدیم سے ھے۔ اس کے ساتھ خوردنی طور پر بھی استعمال کراتے ھیں۔ لحاظہ موچ عرق النساء اعصابی دردوں اور ھڈیوں کی دردوں میں بچھو بوٹی کا بیرونی اور خوردنی استعمال مفید ثابت ہوتا ھے۔
Cardivascular Diseases
بچھو بوٹی کے خوردنی استعمال سے Lipid profile بہت جلد بہتر ہونا شروع ھو جاتا ھے اور جگر کی بھی اصلاح ھو جاتی ھے۔
Allergic Rhinitis
دائمی نزلہ زکام اور پولن الرجی میں اسکا سفوف بہت مفید ثابت ھوتا ھے۔ ان امراض میں سفوف اور جوشاندہ مفید رہتا ھے۔
Side effects
بچھو بوٹی کا کوئی مضر اثر نہیں ھے۔ البتہ تاذہ پودوں کو دستانے پہن کر استعمال کریں۔
Dosageمقدار خوراک
Liquid extract 360mg روزآنہ-
Dry extract 460mg روزآنہ-
خشک پتے 600mg روزآنہ-
بھاپ میں پکائے ہوئے پتے 50gram روزآنہ۔
تاذہ جوس 15ml دن میں تین بار ایک گلاس پانی میں ملا کر۔
ٹنکچر آدھا سے ایک چائے والا چمچ دن میں تین بار۔
قہوہ 5گرام پتوں کو آدھا لیٹر ابلتے پانی میں ڈال کر 15 منٹ دم لگا کر چھان کر پئیں۔
تحریر و تحقیق۔ پروفیسر حکیم حفیظ اللہ بٹ۔

بچھو بوٹی کو سوزش اور ورم کے علاج کے لئے انتہائی مفید سمجھا جاتا ہے تو وہیں اسے موسمی الرجی کے علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دسویں صدی میں اسے شیر افزا (دودھ میں اضافہ کرنے والی) دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

کیونکہ اس میں موجود Galactagogue نامی مادے انسان اور جانوروں کے جسم میں دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسی لئے جن خواتین کی چھاتی میں کم دودھ ہوتاہے انہیں بچھو بوٹی استعمال کرائی جاتی اور دودھ دینے والے جانوروں کے چارے میں اسے شامل کیا جاتا۔ میڈیکل نیوز ٹوڈے (Madical News Today) میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں محقیق ارون کا نڈولہ کہتے ہیں کہ ویسے تو بچھو بوٹی کے بے شمار استعمالات ہیں اور اسے مقفی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ خدشات بھی وابستہ ہیں۔

اس کی افادیت کو سند بخشنے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ قدیم تہذیبوں میں اسے مختلف امراض کے علاج کا ذریعہ تصور کیا جاتا تھا جیسے کہ مصر میں ورم جلد کے لئے شافی سمجھا جاتا۔ ویسے تو اس ضمن میں دو سو سے زائد جلدی بیماریاں آتی ہیں لیکن ان سب کو جلدی امراض کا نام دیا جاتاہے جس میں جلد پہ سوزش‘ خارش‘ ورم‘ سرخی اور درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچھو بوٹی میں ایسے اجزاء موجود ہیں جو کہ درد کو کم کرنے اور جلد پہ ورم کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ یہ جلدی امراض رفع کرنے اور رفع درد میں معاون ہے۔ تحقیق میں جلدی امراض سے متاثرہ افراد کے ایک گروہ سے جب تین ماہ بعد نتائج حاصل کئے گئے تو وہ حیرت انگیز تھے۔ کیسے؟ جن افراد کو بچھو بوٹی سے تیار کردہ دوا استعمال کروائی گئی ان میں جلدی امراض کی شدت میں کمی آئی بانسبت ان کے جو دوسری ادویات استعمال کر رہے تھے۔

سن 2016ء میں ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچھو بوٹی سے تیار کردہ مرہم درد کش دوا ہونے کے ساتھ ورم کو ختم کرنے میں مدد گار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچھو بوٹی سے تیار کردہ ادویات اور کریمیں اسے ضمن میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ ورم کے علاوہ بھی دوسرے جلدی امراض کے لئے بچھو بوٹی سے علاج کرنے میں مہارت حاصل کر سکیں۔

Benign Prostatic Hyperplasia کا علاج

مردوں میں پروسٹیٹ گلینڈ کا بڑھ جانا ایک خطرناک اور تکلیف دہ مرض ہے جس کے باعث پیشاب کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اور خصوصاً رات کے وقت بار بار اس کی حاجت محسوس ہوتی ہے اس بیماری کو طبی زبان میں BPHیعنی Benign Prostatic Hyperplasia کا نام دیا گیا جس سے متاثر ہونے والے افراد کی عمر عموماً 40برس سے زائد ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کینسر کی ہی ایک شکل ہے مگر ایسا بالکل بھی نہیں۔ اس مرض میں پیشاب کی نالی تنگ ہونے کی وجہ کوئی رسولی نہیں بلکہ گلینڈز کا بڑھ جانا ہے۔

جو کہ عموماً ورم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس مرض کے علاج کے لئے بچھو بوٹی کا استعمال کروایا تو مریضوں میں واضع تبدیلی محسوس ہوئی اور انہیں BPHکی علامات کو کم کرنے میں مدد ملی۔ البتہ اس حوالے سے کوئی بھی علاج بذات خود کرنا درست نہیں بلکہ اپنے معالج کے مشورے سے بچھو بوٹی استعمال کی جا سکتی ہے۔

شوگر کا توڑ

آج کے دور میں کوئی شخص ہی ایسا ملے گا جو کہ شوگر کا شکار نہ ہو۔ بلڈ شوگر کے مریضوں کی تمام عمر دوائیاں لینے اور انسولین لگاتے گزر جاتی ہے۔2013ء میں شوگر ٹائپ2کے مریضوں پر تحقیق کی گئی جس میں تین ماہ تک انہیں دوا کے ساتھ بچھو بوٹی سے تیار کردہ کیپسول بھی کھلائے گئے اور نتیجتاً ان کا بلڈ شوگر لیول مثبت درجہ پہ رہا اس کے علاوہ بھی تحقیقات نے ثابت کیا کہ بچھو بوٹی شوگر کے مریضوں میں بلڈ شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مدد گار ہے۔

یوں تو بچھو بوٹی کو روایتی دوا کے طور پر بہت سے امراض جیسے جلد‘ معدہ‘ دل‘ نکسیر‘ نزلہ زکام‘ دمہ اور گلہڑ کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر اس سلسلے میں معالج یا ماہرین کی رائے کے بغیر استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس لئے اپنے طبی معالج کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس کا استعمال کرنا چاہئے۔

بچھو بوٹی کا کھانوں اور مشروبات میں استعمال

بچھو بوٹی کے ننھے پتوں کو جہاں کھانوں میں شامل کیا جاتا ہے وہیں یہ مشروبات میں بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے Balkan Style Creamy Nettle ایران‘ مشرقی یورپ‘ البنیا اور سکنڈویا میں بے حد مقبول ہے۔ اسی طرح اٹلی میں اسے روایتی کھانوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

جیسے (Risotto) رسو تو میں اسے چاول اور گوشت کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے اور Firittata میں اسے انڈوں‘ پیار اور چیز کے ساتھ ملا کر آملیٹ نما ڈش تیار کی جاتی ہے ۔جبکہ Ravioli بچھو بوٹی اور ایگ پاستا کے امتزاج سے بنائی جاتی ہے جسے بچے بڑے سب بے حد پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں Stinging Butter log کو کھانوں میں اہمیت دی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی بچھو بوٹی کو قہوے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں پودینے کے پتوں کو ملا کر اس کی افادیت اور ذائقے کو بڑھا دیا جاتاہے۔

ٹیکسٹائل:

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو آج سے قریباً 3000سال قبل بچھو بوٹی کو کپڑے بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں کپاس ناپید ہونے کی وجہ سے فوجیوں نے بچھو بوٹی سے تیار کردہ وردیاں استعمال ہوکیں۔ حال ہی میں آسٹریا‘ جرمنی اور اٹلی نے ٹیکسٹائل کے شعبہ میں تجارتی مقاصد کے لئے بچھو بوٹی کی پیداوار کے مراکز قائم کئے ہیں۔ گرمیوں اور سردیوں میں خواتین کی پسندیدہ لینین بھی بچھو بوٹی سے حاصل کردہ ریشوں سے تیار کیا جاتی ہے۔

بچھو بوٹی کی حقیقت کیا؟

ماہرین کی رائے جانے بنا کسی بھی قسم کی معلومات کو مستند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی ضمن میں ہم نے حکیم نیاز احمد اڈیال سے بچھو بوٹی کی بابت دریافت کیا کہ کیا واقعی بچھو بوٹی ایک جادوئی دوا ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ بچھو بوٹی میں اللہ تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے۔ مختلف امراض کے علاج میں یہ شافی ہے جیسے جوڑوں کا درد، السر،پر وسٹیٹ کا ورم، پولن الرجی اور گردے میں پتھر کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکیم نیاز کے مطابق پولن الرجی سے آج کل سب پریشان دکھائی دیتے ہیں مگر اس بوٹی میں اللہ تعالیٰ نے اس مرض کے لیے شفاء رکھ چھوڑی ہے۔

جب ہم نے گردوں میں پتھر کے لیے اس کے استعمال کی وجہ جاننا چاہی تو حکیم نیاز کا کہنا تھا کہ گردوں اور پروسٹیٹ کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے تو جیسے اس کے استعمال سے پیشاب کی نالی کا ورم کم ہوتا ہے اور تنگی دور ہوتی ہے اس سے عموماً گردے میں موجود چھوٹی پتھریوں کو نکلنے میں مدد ملتی ہے۔ بالکل اسی طرح اعصابی درد، ہڈیوں کا ورم، جگر کی چربی اور کولیسٹرول میں بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ثعلب مصری

ہڈیوں کے ورم کی صورت میں اسے تیل میں جلا کر اس تیل سے مالش کرنا مفید ہے جبکہ کولیسٹرول اور جگہ کی چربی کو کم کرنے کے لیے اس کا بہترین استعمال قہوے کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قہوے کے لیے اس کی نرم کونپلیں اور پتیاں موزوں ہیں انہیں ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر دو منٹ ڈھکن دے کر پکانے سے سارا اثر نکل آتا ہے۔ یا پھر خشک کرکے سفوف بناکر اسے لیا جاسکتا ہے۔ روزانہ ایک چائے کا چمچ سفوف لینے یا پھر خشک پتوں کی پون چائے کا چمچ بہترین مقدار ہے۔

جب حکیم نیاز سے بچھو بوٹی کو چھونے پر الرجی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا اس کو توڑتے ہوئے داستانوں کا استعمال کرنا چاہیے اور اسے ہمیشہ خشک کرکے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر الرجی ہوجائے تو ایسی صورت میں سرسوں کے تیل میں کافور ڈال کر اسے خراش والی جگہ پر لگانا چاہیے اور حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں خراش نہ کریں اس سے الرجی مزید پھیلتی ہے۔ ایکسپریس نیوز کو سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچھو بوٹی کو بالکل کھانوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور پکانے پر اس کے اندر پائے جانے والے وٹامن A,B اور C محفوظ رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایکسپریس نیوز نے حکیم نیاز کو اپنا قیمتی وقت دے کر اپنی آراء سے آگاہ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply