بچوں پر تشدد کے اثرات
ظالم قاری اور مہتمم حضرات متوجہ ہوں۔
کچھ دن قبل اسلام آباد کے ایک قدیم اور بڑے مدرسے میں حفظ کی کلاس کا بچہ بھاگ کر گھر آگیا، اور اس نے بتایا کہ آج استاد نے چار بڑے بچوں کو کہا کہ اسے ہاتھوں اور پاوں سے پکڑ کر الٹا، لٹا دیں اور ایک بچے کو کہا اس کے سر اور گردن کو گھما کر پکڑیں، گویا جیسے بیل کو ذبح کرتے وقت اس کے سر کو پکڑا جاتا ہے، پھر استاد نے ڈنڈوں سے مارا اس لیے میں بھاگ کر آگیا، اس سے پوچھا گیا کہ کیا آج پہلی بار مارا ہے یا پہلے بھی مارا ہے، اس نے بتایا اسی طریقے سے الٹا لٹاکر پہلے بھی کئی بار مارا ہے، اور استاد کہتا تھا کہ گھر میں بتایا تو بدعا دوں گا۔اس بچے سے پوچھا گیا اور کس طریقے سے مارا ہے تو اس نے بتایا کہ دو بچے ٹانگوں کو پکڑ کر پاوں کے تلوے استاد کی طرف کرتے ہیں اور استاد ڈنڈے کے ساتھ پاوں کے تلووں پر بھی مارتا ہے۔ایسا قاری ظالم ہے اور بچہ مظلوم ہے، بدعا قاری کی نہیں بلکہ بچے کی اسے لگے گی، اور از روئے حدیث اسے قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا، یہ ایسا جرم ہے کہ اگر بچے سے معافی بھی مانگ لے اور بچہ معاف بھی کردے تو معافی نہیں کیونکہ بچے کی معافی دینا قابل قبول نہیں ہے، بچے کے پاس معاف کرنے کا اختیار ہی نہیں ہوتا۔
یہ تشدد کے وہ طریقے ہیں جن کے بارے ہم سنتے رہتے ہیں کہ بڑے بڑے مجرموں، چوروں، ڈاکووں ، قاتلوں اور دہشتگرودوں کے ساتھ خفیہ تہہ خانوں میں کیے جاتے ہیں، جس کا مقصد یا تو کسی معاملے کی تفتیش کرنا ہوتا ہے اور کبھی اس کا مقصد انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کرنا ہوتا ہے،تاکہ جب یہ رہا ہو کر جائیں تو آئندہ کسی کام کے نہ رہیں، خاص طور پر پاوں کے تلووں پر ڈنڈے مارنے سے ذہن مفلوج اور ذہنی صلاحیتیں مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہیں۔
سزا اور تشدد میں فرق
ایک استاد کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سزا اور تشدد یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، سزا کا مقصد تادیب ہوتا ہے اور اس کی بے شمار شکلیں ہیں، جبکہ تشدد اور وہ بھی بچوں پر ایک سنگین جرم ہے، دنیا کے قانون میں بھی جرم ہے اور اللہ کے قانون میں بھی جرم ہے۔ جیسے ہم کسی بھی استاد کو رکھتے وقت یہ جاننے کے لیے کہ آیا یہ پڑھانے کے قابل ہے یا نہیں مختلف امور دیکھتے ہیں، مثلا اسناد، تجربہ عمر وغیرہ اور پھر سلیکٹ کرتے ہیں، تو سائیکالوجی کے مطابق جو استاد پڑھاتے ہوئے مارنے پر آجائے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس استاد میں پڑھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ہمیں یہ بات حیران کردینے والی ہے کہ دینی مدارس کا مقصد تو دین کی ترویج ہے، لہذا یہاں بچوں کو لیڈر بنانا چاہیے نہ کہ ان کے ذہن کو مفلوج کرکے غلام یا پاگل بنایا جائے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں آج دنیا پر حکمرانی کرنے والی قومیں اپنے بچوں پر تشدد کرنا تو دور کی بات تشدد والی تصویر یا تشدد والی ویڈیو انہیں دکھاتے۔ کیونکہ تشدد اور وہ بھی کسی بچے پر اس کے ذہن پر ایسے اثرات چھوڑتا ہے جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہتے ہیں،جاپان میں پرائمری تک بچوں کو پیدل سکول آتے ہوئے بھی سر پر ہیلمٹ پہننا لازمی کہ کہیں راستے میں ان کا سر کسی درخت، یا دیوار کے ساتھ نہ ٹکرا جائے، انہیں اپنے بچوں کی اتنی فکر ہے کہ وہ سرکو دیوار سے ٹکرانے سے بچانے کے لیے بچوں کو ہیلمٹ پہناتے ہیں یہی وجہ ہے ایسے بچوں کی ذہنی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور بڑے ہو کر لوگوں کو لیڈ کرتے ہیں۔ہزاروں مدارس ، اور لاکھوں علماء موجود ہونے کے باوجود ان میں سے لیڈر اسی لیے نہیں نکل رہے کہ ان کے ذہن مفلوج کردیے گئے ہیں۔ ایک چیز آپ نے نوٹ کی ہوگی کہ بڑے اور امیر لوگوں کے بچے بھی بڑے اور لیڈر بنتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں شاید یہ پیسے کے زور پر ایسا ہوتا ہے، حالانکہ یہ بات نہیں اصل بات یہی ہے کہ بڑے اور امیر لوگوں کے بچے بغیر تشدد کے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کے والدین کے بڑا ہونے کی وجہ سے کوئی استاد ان پر تشدد نہیں کرسکتا جس کا مثبت پہلو یہ نکلتا ہے کہ وہ بچہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ عملی زندگی میں آتا ہے۔
آپ بلاول بھٹو کو ہی دیکھ لیں پچیس سال کا نوجوان اور پاکستان کی سب سے اہم پوسٹ جو شاید وزیر اعظم کے برابر کی ہے وزارت خارجہ وہ اسے دی گئی، یہ صرف اس وجہ سے نہیں دی گئی کہ وہ زرداری کا بیٹا ہے بلکہ واقعتا اس میں اس وزارت کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔اگر بچپن میں بلاول کو بھی الٹا لٹا کرلتریشن کی جاتی، اس کے پاووں کے تلووں پر ڈنڈے برسائے جاتے تو وہ ہرگز اتنا قابل نہ بنتا۔
بچوں پر تشدد کے اثرات
اس وقت مسلمانوں میں کئی ایسی مشہور شخصیات جو علماء، مدارس اور دین کے خلاف کام کرتی ہیں، یہ سب وہ لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں کسی دینی مدرسے میں پڑھتے تھے، جہاں ان پر تشدد ہوا اور اس تشدد نے انہیں ہمیشہ کے لیے ذہنی معذور کردیا، اب ان کی زندگی کا مشن ہی علماء، مدارس کے خلاف کام کرنا ہے۔ اس کی چند مثالیں، معروف اینکر سبوح سید، انجینئر محمد علی مرزا، مشہور ملحد اویس اقبال اور دیگر بہت سارے لوگ ہیں جنہیں میں جانتا ہوں لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا۔
ایک مشہور ملحد ہے جو اس وقت امریکا میں بیٹھا ہوا اس کا نام اویس اقبال ہے، چند مہینے پہلے امریکا میں مفتی ندیم یاسر الواجدی کے ساتھ اس کا مناظرہ بھی ہوا تھا آپ نے بھی یوٹیوب پر سنا ہوگا۔ یہ ملحد اس وقت الحاد پر بہت زیادہ کام کررہا ہے، الحاد کا داعی ہے اور یوٹیوب پر اسے ہزاروں لوگ فالو کرتے اور اس کی ویڈیو سنتے ہیں، یہ بھی ایک قاری صاحب کا ڈسا ہوا ہے یعنی ایک قاری کی غلطی نے اسے ایمان سے ہی محروم کردیا، وہ نہ صرف خدا کا منکر بن گیا بلکہ الحاد کا داعی بھی بن گیا، اس کا جو صحافی بھی انٹرویو کرتا ہے اور اس کے بچپن کا پوچھتا ہے تو یہ اسی بات سے آغاز کرتا ہے کہ میں اھلحدیث فیملی سے تعلق رکھتا تھا، میرے والد پکے دین دار اور والدہ شرعی پردہ کرنے والی اور پھر وہ قاری کا واقعہ سناتا ہے جو اس کا استاد تھا۔قاری کے ظلم نے اس کے سینے میں ایسا بیج بویا کہ پہلے وہ قاری سے متنفر ہوا، پھر قرآن سے متنفر ہوا اور پھر خدا کا منکر بن گیا، اگر بات یہاں تک ہی ہوتی تو بھی قابل برداشت تھی لیکن وہ یہاں نہیں رکا بلکہ پچھلے پندرہ سال سے وہ مسلسل اسلام، قرآن، نبی، مدارس، مساجد، علماء پر حملے کرتا ہے۔جو بچہ تشدد کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر بھاگ جائے سمجھ جائیں اس کی زندگی کا مشن ہی مدارس کے خلاف کام کرنا ہوگا۔ اگرچہ سب بچے ایسے نہیں بھی ہوتے لیکن جتنے لوگ اس وقت دین مخالف کام کررہے ہیں خاص طور پر علماء کے خلاف ان سب کا بچپن کسی مدرسے میں گزرا ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا کی دس بارہ سال پہلے میں نے ایک وائرل ویڈیو دیکھی تھی شاید 2012، 2013 میں، اس ویڈیو میں انجینئر محمد علی مرزا نے جو باتیں کیں تھیں ان میں اشارتا یہی بتایا تھا کہ وہ بھی بچپن میں کسی مدرسے میں پڑتا تھا، کسی قاری کے ظلم نے اس کے دل میں مسجد، مدرسہ، قاری، عالم کی نفرت بٹھا دی، اور آج وہ نفرت ایک تن آور درخت کی صورت میں اپنا پھل دے رہی ہے۔
میں ایک ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں جس نے ستائس سپارے حفظ کر لیے تھے، قاری نے اس پر بدترین تشدد کیا، جس سے وہ مدرسہ اور گھر دونوں سے بھاگ گیا اور پھر فلموں میں کام کرنا شروع کردیا، مشہور اداکار سلطان راہی بیس پچیس سپاروں کا حافظ تھا وہ بھی قاریوں کے ظلم سے بھاگ کر فلم انڈسٹری میں چلا گیا تھا، اور پھر ساری زندگی اس کی اس گندے ماحول میں گزری۔
جو بچہ بیس پچیس سپارے حفظ کر لے اس کو تو ایسے ٹریٹ کرنا چاہیے جیسے سات ماہ کی حاملہ ماں کو کیا جاتا ہے، چہ جائے کہ ان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے، میں نے خود دیکھا ہے جو بچے بیس پچیس سپاروں سے زیادہ حفظ کر لیتے ہیں تو قاری ان پر یہ کہتے ہوئے زیادہ تشدد کرتے ہیں کہ تمہارا قرآن ختم ہونے والا ہے تم تکبر کرتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ بھائی بچہ کیا تکبر کرے گا، اور اگر تکبر والی بظاہر صورت نظر بھی آرہی ہو تو یہ خود قرآن کا ہی حکم کہ ((اے نبی ! ان سے) کہہ دیجیے کہ یہ (قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں ! وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔) بچے کو قرآن کی تکمیل کی خوشی ہوتی ہے جو اس کی چال، اس کی گفتگو اور چہرے سے چھلک رہی ہوتی ہے لیکن جاہل اور اجڈ قاری اسے تکبر قرار دے کر تشدد کرتا ہے۔
ایک استاد کو یہ سمجھنا چاہیے تمام بچے ایک طرح نہیں ہوتے کوئی ذہین ہوتا ہے کوئی کمزور ہوتا ہے۔ اور پھر استاد کا کام بچے کو پڑھانا ہے سکھانا ہے، اگر کسی کی رفتار کم ہے تو اسے اسی طرح چلانا چاہیے، تادیب کے لیے سزا دی جاسکتی ہے مثلا کھڑا کرنا، ڈانٹ دینا، مصنوعی غصے کا اظہار کرنا، مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرنا وغیرہ، لیکن بچوں کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنا جیسے کسی تھانے میں لتریشن کی جاتی ہے یعنی چار بندے ہاتھ پاوں پکڑیں اور استاد ڈنڈے برسائے اور جسم پر ڈنڈوں کے نشانات بن جائے جسم زخمی اور سرخ ہو جائے اس کی اجازت نہ اللہ دیتا ہے نہ دین دیتا ہے اور نہ ملک کا قانون دیتا ہے۔
مہتمم حضرات سے گذارش ہے ایسے قاری کو صرف مدرسے سے فارغ نہ کیا کریں، بلکہ اس نے جو ظلم کیا ہے اس کی سزا دینے کے لیے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر جیل بھیجا کریں، ہمارے آئین اور قانون میں ایسے دفعات پہلے سے موجود ہیں، چند ظالم قاری جیل گئے تو باقی خود ٹھیک ہو جائیں گے۔