برطانیہ،امریکا اور پوست کی کاشت
(سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
افغانستان پر عالمی طاقتوں کے حملہ آور ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ امریکا اور برطانیہ کی ذریعہ آمدن بند ہو جانا بھی تھا۔ آپ سوچیں گے افغان سٹوڈنٹ نے ان کا ذریعہ آمدن کیسے بند کردیا تھا؟
برطانیہ اور امریکا کے ذرائع آمدن میں سے دو ذرائع ایسے ہیں جن کے ذریعے وہ بہت پیسہ کماتے ہیں، ایک ہتھیاروں کا کاروبار اور دوسرا منشیات کی سمگلنگ۔ افغان سٹوڈنٹس نے 1996 میں اقتدار سنبھالتے ہی پورے افغانستان میں پوست اور افیون کی کاشت پر مکمل پابندی لگا دی تھی، بلکہ جب ان کے امیر نے حکم دیا تھا اس وقت ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ چنانچہ افغانستان جو افیون کی کاشت میں پہلے نمبر پر تھا فورا زیرو پر آگیا۔ ظاہر ہے اس سے برطانیہ اور امریکا کے ذرائع آمدن کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ یہی وجہ ہے کہ سٹوڈنٹس کی حکومت ختم ہوتے ساتھ ہی افغانستان میں پوست افیون کی کاشت بڑے پیمانے پر برطانیہ اور امریکا کے زیر نگرانی دبارہ شروع ہوگئی۔
یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ برطانیہ اور امریکا فصلوں کی خود نگرانی کرتے، امریکا کی فوج فصلوں کی حفاظت کے لیے باقاعدہ فصلوں میں موجود رہتی اور پھر پاکستان، تاجکستان کے راستے یہ منشیات پوری دنیا میں سپلائی کی جاتی تھیں۔ پاکستان نے جب کبھی بھی طورخم، چمن، یا خاص طور پر انگور اڈا کراسنگ پوائنٹ بند کیے تو افغان اور امریکن فوجوں کے ساتھ اس وجہ سے جھڑپیں بھی ہو جاتی تھیں، کیونکہ دو چار دن بھی انگور اڈا کراسنگ پوائنٹ بند ہونے سے امریکا برطانیہ کو منشیات سمگلنگ رکنے سے لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا تھا، اس لیے وہ کراسنگ پوائنٹ فورا کھلوانے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ افغان بارڈر پر باڑ لگانے میں بھی برطانیہ اور امریکا نے بہت رکاوٹ ڈالی اس کی وجہ بھی منشیات میں سمگلنگ کے کاروبار کا نقصان تھا۔ جب پاکستان نے اکثر بارڈر پر باڑ لگا لی تھی تب برطانیہ اور امریکا زیادہ تر سمگلنگ انگور اڈا کراسنگ پوائنٹ کے ذریعے کرتے تھے۔ چند ماہ پہلے حکومت پاکستان نے کچھ دنوں کے لیے انگور اڈا کراسنگ پوائنٹ کو بند کیا تو امریکی فوجیں حملہ کرنے کے لیے پہنچ گئیں اور زبردستی انگور اڈا گیٹ کھلوا دیا۔ بیس سالوں میں افغانستان میں پوست کی کاشت اور اس کی سمگلنگ سے امریکا برطانیہ نے کروڑوں ڈالر کمائے لیکن ان دونوں ملکوں کا میڈیا من گھڑت پروپیگنڈا کرتا رہا۔
اس معاملے میں کتنا جھوٹ بولا جاتا رہا اس کا اندازہ آپ اس تصویر سے لگائیں جو ایک افغان فارسی ویب سائٹ کی ہے جس کا ٹائٹل یہ دیا گیا ہے کہ افغان حکومت یعنی (امریکی زیرنگرانی چلنے والی اشرف غنی کی حکومت) خوست صوبے میں افیون کی فصلوں کو تباہ کررہی ہے، اگر آپ اس تصویر کو غور سے دیکھیں تو یہ تصویر پاکستان کے کسی علاقے کی ہے جہاں ایف سی اہلکار فصل کو تباہ کررہے ہیں اور ان کے بازو پر پاکستان کا جھنڈا بھی بنا ہوا ہے۔
جبکہ دوسری طرف ان دونوں ملکوں کے مشہور میڈیا چینل بی بی سی اور وائس آف امریکا ہمیشہ یہ پروپیگنڈا کرتے آئے ہیں کہ افغان سٹوڈنٹس کا ذریعہ آمدن افیون ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے بیس سال تک تو امریکا اور برطانیہ حکومت کرتے رہے اور سٹوڈنٹس پہاڑوں اور غاروں میں چھپے رہے جبکہ افیون کھیتوں میں کاشت ہوتی ہے وہ کیسے اتنی بڑی فصل کاشت کرسکتے ہیں جس کے لیے ہل چلانا، بیج بونا، پانی اور گوڈی کا بندوبست کرنا اور پھر فصل اکھٹی کرنا وغیرہ طویل محنت کھیتوں میں کی جاتی ہے وہ یہ کیسے کرسکتے تھے۔ فصلیں غاروں میں نہیں اگتیں۔ اب ان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے والی ہے اور وہ دبارہ پوست کی کاشت پر پابندی لگا دیں گے، جس کا برطانیہ اور امریکا کو بہت دکھ ہو رہا ہے۔ اس سارے معاملے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بی بی سی، وائس آف امریکا وغیرہ مغربی میڈیا چینل کتنا جھوٹ بولتے اور من گھڑت پروپیگنڈا کرتے ہیں، ان کے ہاں سچ، اخلاقیات اور ایمانداری کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔