بد فعلی۔ کیا یہ اسلام یا مولویت کا عمل ہے؟
سید عبدالوہاب شیرازی
لاہورکے ایک مدرسے میں سامنے آنے والے انتہائی گھٹیا واقعے کے بعد اسلام دشمن اس طرح سامنے آگئے ہیں جیسے بارش کے موسم میں کسی چھپڑ میں مینڈک اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے مدرسے بند کرو، اور کوئی کہہ رہا ہے اپنے بچوں کو کھلا نہیں سکتے تو مدرسے میں پڑھانے کے بجائے اپنی اولاد کو گلا گھونٹ کر مار دو۔
جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو سب سے پہلے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے وہ فورا مجرم کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دے۔ اور ملک میں شرعی سزاوں کے نفاذ کا آغاز اسی مجرم سے کرے۔
افغانستان طالبان دور حکومت میں بدفعلی کے مرتکب کو شرعی سزا دی جاتی تھی، یعنی اسے پہاڑ سے گرا دیا جاتا تھا یا اس پر دیوار گرا دی جاتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، البتہ قرآن و حدیث میں سخت قسم کی وعیدیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام کے دور حکومت میں ایسا واقعہ ہوا تھا جسے اس قسم کی سخت سزائیں دی گئیں تھی۔ بدفعلی کے مرتکب کو سخت سے سخت سزا دینے میں قاضی اور جج خود مختار ہے کہ وہ جو چاہے سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے، تاکہ سب کے لیے عبرت ہو۔
ان پڑھ اور پرلے درجے کے جاہلوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر اسلام اور اسلامی تعلیم دینے والے اداروں کے خلاف کتوں کی طرح بھونکنا شروع کردیا ہے۔ یہ وہی کتے ہیں جو ملک میں ہونے والے سالانہ پانچ ہزار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد گلا دبا کر مار دینے والے واقعات پر خاموش بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ یہ سالانہ پانچ ہزار واقعات سکول کالج اور یونیورسٹی کے معزز فاضلین کی طرف سے ارتکاب کیے ہوتے ہیں۔ یاد رہے یہ تعداد بچوں کی ہے یونیورسٹی اور کالج لیول پر جو واقعات ہوتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 9 بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور اور 9 میں سے چھ ساتھ زیادتی کرنے والے ان کے قریبی عزیز ہوتے ہیں۔ لیکن گندے کنویں کے ان مینڈکوں کو بس ایک واقعہ مل گیا بجائے اس کے کہ اس مجرم کو سزا دینے اور معافی کسی صورت نہ دینے کی بات کی جائے، اسلام اور اسلامی اداروں کے خلاف شروع ہو گئے ہیں۔ اس قسم کی پوسٹوں سے اندازہ ہوتا ہے ان لوگوں کو برے فعل کے بجائے مدارس اور دینی تعلیم سے نفرت ہے۔
اگر یہی اصول مانا جائے تو کالجوں یونیورسٹیوں کو بھی بند ہونا چاہیے، کیونکہ وہاں جنسی زیادتی کے کیس اس سے بھی زیادہ ہیں، جہاں تک سیاسی پارٹی کے عہدے کا تعلق ہے تو کونسی پارٹی ہے جس میں ایسے لوگ نہیں۔ ہمارا وزیراعظم امریکی عدالت کا سیتا وائٹ کیس میں سرٹیفائیڈ سزا یافتہ ہے، تو کیا اس کا مطلب ہوا سارے پی ٹی آئی والے زانی ہیں۔؟ اچھے برے لوگ ہر جماعت، ہر طبقے اور ہر ماحول میں موجود ہوتے ہیں، کسی ایک مجرم کی وجہ سے پوری جماعت، پورے طبقے، اور پوری قوم کو مجرم نہیں کہا جاسکتا۔ کالجوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے کتنے واقعات کی ویڈیوز موجود ہیں لیکن مولویوں یا مدارس والوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ سارے مسٹر ایسے ہی ہیں۔
پڑھے لکھے کی پہچان یہ ہوتی ہے جب بھی بات کرے منصفانہ کرے۔ لاہور میں اس کمینے شخص نے جو کیا اسلام کہتا ہے اسے دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے اس پر دیوار گرا دو، یا اسے پہاڑ سے گرا دو، یہ شرعی سزا ہے، لیکن اس کے راستے میں سیکولر طبقہ ہی رکاوٹ ہے جو اس سزا کا نفاذ نہیں ہونے دیتا۔ بچوں کے ساتھ سالانہ ہزاروں واقعات کے مجرموں کو شرعی سزا دینے میں یہی جاہل سیکولر طبقہ رکاوٹ ہے۔