اچھرہ واقعہ اور عربی حروف تہجی کا ادب و احترام

اچھرہ واقعہ اور عربی حروف تہجی

اچھرہ واقعہ اور عربی حروف تہجی کا ادب و احترام

عربی حروف تہجی کا احترام

(سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)

دو دن قبل لاہور کے علاقہ اچھرہ میں ایک واقعہ پیش آیا، ایک خاتون ایسا لباس پہنے ہوئے بازار میں آئی جس پر قرآنی خط کے سٹائل میں عربی کے کچھ حروف اور جملے لکھے ہوئے تھے، یہ عربی حروف شلوار اور قمیص دونوں پر مکمل طور پر لکھے ہوئے تھے۔اس عورت کو دیکھ کر دو سمجھدار اشخاص نے اسے ایک کیفے ٹیریا میں بٹھا دیا اور کہا کہ آپ اس نازیبا لباس میں یہاں سے باہر نہ جائیں ہم پولیس کو بلاتے ہیں، اس عورت کے ساتھ اس کا خاوند بھی موجود تھا۔ چنانچہ پولیس کو فون کیا گیا، جتنی دیر میں پولیس آرہی تھی اتنی دیر میں اس کیفے ٹیریا کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے، چونکہ کیفے ٹیریا کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا اس لیے باہر نئے آنے والے لوگوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ عورت نے شاید قرآنی آیات لکھا ہوا لباس پہنا ہوا ہے۔  ظاہر اس بات پر ہر وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے غصہ آنا فطری عمل ہے، ہاں جس کا دل سیاہ ہو چکا ہواور  رتی بھر ایمان بھی نہ ہو تو اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جب پولیس موقع پر پہنچی جس میں ایک خاتون افسر بھی موجود تھیں انہوں نے سارا واقعہ نوٹس کرکے لوگوں کو بتایا کہ لباس پر قرآن کی آیات نہیں بلکہ صرف عربی کے جملے لکھے ہوئے ہیں، اس طرح اس خاتون افسر نے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اس عورت کو برقعہ پہنا کر وہاں سے نکالا اور تھانے پہنچا دیا۔ بعد میں تھانے میں اس عورت نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا  کہ مجھے یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

واقعات تو ہوتے رہتے ہیں، اچھے بھی اور برے بھی لیکن اس واقعہ کے بعد دین بیزار، دین دشمن ، دیسی لبرل اور سیکولرازم کا شکار سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور  عربی زبان، دین اسلام، اور ایمان والوں کا مذاق اور ان پر طنز اور جملے کسنا شروع کر دیے۔ احتجاج کرنے والے لوگوں کو جاہل اور انتہاء پسند کہا جانے لگا۔

یاد رکھیں! عربی حروف تہجی اور وہ بھی ایسے سٹائل اور خط میں جو قرآنی ہو اس کی قطعا حمایت نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس کو جواز بنایا جاسکتا ہے۔ اس عورت کو دیکھ کر احتجاج کرنے والے جاہل نہیں بلکہ اس بیہودہ گندے اور کمینے عمل کی حمایت کرنے والے پرلے درجے کے جاہل، اجڈ اور دین بیزار ہیں، جو اپنے آپ کو نام نہاد روشن خیالی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کسی بھی زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں کے ہاں عربی جو ہمارے نبی، ہمارے قرآن اور ہمارے دین کی زبان ہے ہمارے لئے بہت محترم ہے، ہم اس بات کی قطعا اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص  ایسا لباس پہنے کہ اس لباس کی ایسی جگہوں پر قرآنی سٹائل میں حروف لکھے ہوں جہاں پیشاب اور گندگی بھی لگ سکتی ہے اور ان حروف کے اوپر پچھوڑا رکھ کر بیٹھنا بھی پڑتا ہے۔

جن  لوگوں کے ہاں عربی حروف تہجی کا احترام نہیں وہ بے شک احترام  نہ کریں کوئی زبردستی نہیں لیکن اس کی آڑ میں سیکولرازم کے نظریات یعنی ”دنیوی معاملات کو کسی بھی آسمانی دین و مذہب سے دور رکھیں” کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی دین اسلام اور عربی زبان کی تضحیک کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

زبان انسانی مقاصد کے حصول باہم رابطے، جذبات کے اظہار اور علم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا سے ہمکلام ہونے کا ذریعہ بھی زبان ہی ہے۔ دنیا کی تمام حکومتوں، اداروں اور تعلیمی اداروں کا سارا نظام زبان ہی کی مرہون منت ہے۔

اللہ تعالیٰ بھی انسانوں کو کسی زبان میں ہی مخاطب کرتا ہے، انسانی تاریخ میں مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی مختلف زبانوں سے مخاطب کیا اور ہدایات دیں۔ لیکن سب سے آخر میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر آخری کتاب قرآن اور آخری دین، دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا۔

چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے عربی زبان کو ایک خدائی نشانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کا احترام کیا۔دین اسلام نے عربی زبان کو بعض عبادات میں اتنا ضروری قرار دیا کہ عربی زبان کے بغیر وہ عبادت اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں قرار پاتی۔  اسی وجہ سے مسلمانوں کا عربی سے رشتہ ہمیشہ ادب و احترام والا رہا ہے۔

جس طرح کسی بھی ملک ، حکومت اور سلطنت کی ایک قومی زبان ہوتی ہے اور اس سلطنت کے تمام امور اسی زبان میں سرانجام پاتے ہیں اور اس ملک میں اس زبان کو خصوصی احترام والا مقام ملتا ہے، اسی طرح دونوں جہاں کے بادشاہ، خالق و مالک اللہ رب العزت کی حکومت اور سلطنت کی زبان عربی ہی ہے،  جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں بیان کیا ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے۔حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے۔“ (فتاویٰ رضویہ،(ج 23،ص 336، 337)

ادب احترام بہت بڑی چیز ہوتی ہے، عربی زبان تو کیا اردو زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ضروری ہے چہ جائیکہ کوئی ان حروف کی بے ادبی کا کوئی سامان پیدا کرے۔ چونکہ اچھرہ واقعہ میں پورے لباس (شلوار، قمیص) پر کچھ جملے لکھے ہوئے تھے جو واضح طور پر بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے بالکل غلط فعل تھا۔ہمارے لیے حجت سعودیہ کا کوئی برینڈ یا کمپنی نہیں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات اور اکابرین اسلام کا عمل ہے۔چنانچہ اس واقعہ کے رونما ہونے سے بہت پہلے ہی ہمارے علماء اور جامعات نے ایسے فتاویٰ صادر کر دیے تھے جن میں ایسے لباس کی کراہت اور ممانعت کو بیان کیا ہے۔ مندرجہ ذیل میں دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے دو فتاویٰ پیش کیے جاتے ہیں جن میں اس عمل کو برا کہا گیا ہے۔

بنوری ٹاون کا فتوی:

سوال

کیا اس طریقے کے کپڑے پہننا صحیح ہے، جن پر اردو رسم الخط یا حروف تہجی بنے ہوئے ہوں؟

جواب

حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل، فرعون وغیرہ کا نام لکھا تو بھی اس پر تیر کا نشانہ لینا مکروہ ہے، اس لیے ان حروف کی حرمت ہے۔

لہذا پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو  بے  ادبی کا صدور   اور بعض میں اس کا اندیشہ  موجود ہے، مثلاً قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہوگی، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے، اس لیے ایسے کپڑوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد  انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’إذا كتب اسمَ ’’فرعون‘‘ أو كتب ’’أبو جهل‘‘ على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية‘‘. (٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

وفیه أیضاً:

’’ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان‘‘.

( الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى، ٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

 فقط والله أعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بریلوی مکتہ فکر کا فتویٰ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو جیسے آجکل کچھ برینڈ اپنے کپڑوں پر مختلف تحریریں ،شاعری وغیرہ چھاپتے ہیں، اس کو پہننا شرعاکیسا ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو خواہ وہ سادہ تحریر ہو یا شاعری وغیرہ ،اسے پہننا منع ہے کہ اس میں حروف تہجی ( جن سے کلام بنتا ہے )کی بے ادبی کے کئی پہلو موجود ہیں۔اور حروف تہجی کا ادب کرنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں وہ الھامی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی)ہیں اور ان کا ادب ضروری ہے ۔

تفسیر کبیر میں امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں:

”الغات كلها توقيفية“

ترجمہ:(دنیا میں بولی جانے والی) تمام زبانیں الھامی ہیں۔(التفسیر الکبیر،الجزالثانی،سورت البقرہ،آیت31،جلد1،صفحہ396،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم

کتبہ

غلام رسول قادری مدنی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#اچھرہ #نکتہ

Related posts

Leave a Reply