اپنے بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

(سیدعبدالوہاب شیرازی)

کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں

دنیا کے کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یا دنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اور اس پر کچھ تبصرہ آج کا میرا موضوع ہے۔دنیا میں کامیاب ترین رہنماوں کی 55فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سائنسی علوم نہیں حاصل کیے، بلکہ ان کی کامیابی کا راز غیر سائنسی علوم تھے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ برٹش کونسل کی ایک تحقیق اور سروے کی رپورٹ ہے جو اس نے 30سے زائد ممالک کے 1700افراد پر کی۔تحقیق سے پتا چلا کہ نصف سے زائد 55 فیصد رہنماوں نے سوشل سائنس اور ہیو مینٹیز کا مطالعہ کیا تھا۔ ان میں سے 44 فیصد نے سوشل سائنس اور 11 فیصد نے ہیو مینیٹیز میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے، ان میں سوشل سائنس کے مطالعے کے امکانات زیادہ تھے، اسی طرح غیر منافع بخش تنظیموں سے وابستہ افراد ہیو مینٹیز کا پس منظر رکھتے تھے۔

حکمرانی کرنے والے


پولٹیکل سائنس اور سوشل سائنس یعنی سماجی علوم یا معاشرتی علوم وہ علوم ہیں جن میں ہم لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی وہ علوم ہیں جن کو پڑھ کر یا مہارت حاصل کرکے کچھ لوگ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، چونکہ ان کو ان علوم کی اہمیت کا خود اندازہ ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو بھی یہی علوم پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات حیرت سے کم نہ ہوگی کہ یورپ وغیرہ میں ڈاکٹری،انجینئرنگ وغیرہ سیکھنے یا پڑھنے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کے ڈاکٹر اور انجینئرز دھڑا دھڑ یورپ ایکسپورٹ ہورہے ہیں۔ یورپ والوں کی نظر میں میڈیکل سائنس، الیکٹریکل سائنس، کمپیوٹر سائنس وغیرہ عام سے کام ہیں اسی لئے ان کاموں کے لئے وہ دوسرے محکوم ممالک سے لوگوں کو بلاکر ملازم رکھ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈاکٹری ایک پیشہ ہے لہٰذا وہ اس پیشے والے کو تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں جبکہ اپنے بچوں کو وہ سوشل سائنس،پولٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں تاکہ ہمارے بچے حکمرانی کریں اور باقی لوگ ڈاکٹر،انجینئرز وغیرہ ہمارے ملازم ہوں اور ہمارے ماتحت رہ کر ہماری خدمت کریں۔ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی سے فراغت حاصل کرکے پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکوں کو بھاری تنخواہوں اور مراعات کی لالچ دے کر امریکا لے گیا۔ میرا ایک جاننے والا سپین میں رہتا ہے ایک دن فون پر بات ہورہی تھی اس نے کہا میرے دانت میں درد ہے آج ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اس نے ٹوکن دے دیا ہے اب پندرہ دن بعد میری باری آئے گی پھر وہ چیک کرے گا اور دوا دے گا، اس نے بتایا یہاں ڈاکٹر بہت کم ہیں اس لئے چیک اپ کروانے کے لئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے پاکستان میں ہسپتالوں میں مریضوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں، اگر کسی مریض کو دس منٹ بھی انتظار کرنا پڑے تو منہ چڑھا لیتا ہے۔ہرسال ہزاروں پاکستانی میڈیکل،انجینئرنگ اور دیگر فنون میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد بڑی آسانی سے یورپ میں سیٹ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی بہت ڈیمانڈ ہے وہاں کے مقامی لوگ ان چیزوں میں خود دلچسپی نہیں رکھتے وہ یہ کام دوسرے لوگوں سے لیتے ہیں، خود نگرانی اور ایڈمنسٹریشن کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں بھی جو چند خاندان پچھلے ساٹھ ستر سال سے سیاست کرتے آرہے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو سوشل سائنس اور پولٹیکل سائنس ہی پڑھاتے ہیں کیونکہ ان کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
یہ علوم اصل میں تو ایک مسلمان کے لئے ضروری تھے، کیونکہ اللہ نے اسے زمین پر اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا، نبی اللہ کے خلیفہ ہوتے تھے،اللہ کا آخری خلیفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پھر ان کے بعد نائبین تھے۔ لیکن مسلمانوں نے نبی کا نائب بننے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی چنانچہ آج غیرمسلم اقوام دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اور مسلمان ان کی غلامی میں ان کی خدمت اور محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چَرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں، میں قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا چند قیراط پر(مشکوة)۔ علماءنے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی نے آگے جاکر قوم کی قیادت کرنی ہوتی ہے، قوم کو لے کر چلنا ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ بچپن میں نبی سے بکریاں چروا کر اس کی تربیت فرماتے ہیں ، کیونکہ ایک چرواہا سینکڑوں بکریوں کو کنٹرول کرتا ہے کبھی کوئی بکری ایک طرف بھاگتی ہے کبھی دوسری طرف اسے بھاگ بھاگ کر ان کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے اس طرح اس کی تربیت ہوتی ہے کہ انسانوں کے بے لگام ہجوم کو کس طرح اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔

موجودہ دور کی تبدیلی

موجودہ دور میں جس طرح ہر چیز نے ترقی کی ہے اسی طرح بکریاں چروا کر جو تربیت ہوتی تھی وہ بھی اب باقاعدہ ایک علم بن گیا، جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔اسی علم کو آج سوشل سائنس، پولٹیکل سائنس ،عمرانیات وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔سمجھدار لوگ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے لوگوں کے دل ودماغ اور وجود سے کام لیتے ہیں ۔سوشل سائنس اور سماجی علوم کی کئی شاخیں ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے اپنے کاروبار چلاتی ہیں، وہ ماہرین لوگوں کی نفسیات کے مطابق پروڈکٹ میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں، اسی طرح ایڈورٹائزنگ کا شعبہ بھی ایسے ہی لوگ چلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں دینی طبقہ جن کے اخلاص للٰہیت اور دینی خدمات میں کوئی شک نہیں، بدقسمتی سے ان علوم سے نابلد رہا۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ ایک خاص سازش کے تحت اس طبقے کو باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے محروم رکھا گیا، اور اس کام کے لئے علماءکی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ جس طرح ایک تین چار سال کا بچہ ضدی ہوتا ہے، کبھی اسے کہیں دودھ پیو تو وہ کہتا ہے میں نہیں پیوں گا۔ پھر اسے کہو یہ دودھ نہیں پینا تو وہ کہتا ہے میں ضرور پیوں گا، اسی طرح علماءکو مرحلہ وار اس سٹیج پر لایا گیا کہ وہ ضد میں آگئے اور انہوں نے جدید علوم کو سیکھنے سکھانے سے انکارکردیا۔ جن لوگوں نے اس سٹیج تک لایا انہوں نے اس بات پر اور پکا کرنے کےلئے کئی حربے آزمائے، الٹے سیدھے کام کرکے علماءکو کہتے کہ یہ پڑھاو ، علماءضد میں آکر کہتے نہیں ہم نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ اس طرح پچھلی دو صدیوں سے دینی طبقے کو بالکل دیوار سے لگا دیا گیا۔ اب چند سال ہوئے کہ دینی طبقے کو ہوش آیا اور انہوں نے کچھ نہ کچھ اس طرف توجہ کی ہے،لیکن ظاہر ہے اس کے نتائج برآمد ہونے میں چالیس پچاس سال تو لگیں گے، اگر یہ کام پچاس سال پہلے کیا ہوتا تو آج بڑے بڑے دینی ماہرین حکومت،فوج،عدلیہ اور دیگر اداروں میں قیادت کررہے ہوتے۔ان علوم سے ناواقفیت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ علماءکو یہ لوگ اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا احساس تک علماءکو نہیں ہوتا، ویسے تو اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن میں ایک مثال دیتا ہوں، چند سال قبل ایک چینل پر ایک طویل ڈرامہ قسط وار چلنا شروع ہوا، اس چینل نے روٹین کے مطابق اس کی ایڈورٹائزنگ کی یعنی ٹی وی، اخبارات وغیرہ میں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماءکے ذریعے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ کرانے کا فیصلہ ہوا، چنانچہ چند لوگوں کوایسے مختلف علماءکے پاس بھیجاجو خطیب اور مقرر تھے، ان لوگوں نے مختلف شہروں میں علماءسے مل کر انتہائی نیازمندی سے کہاحضرت فلاں چینل پر ایک ڈرامہ شروع ہونے والا ہے، اس ڈرامے میں قرآن پاک کی توہین کی گئی ہے،آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ چنانچہ خطیب صاحبان نے نہ تحقیق کی اور معلومات لیں، بس ایک سنی سنائی بات پر جمعے کی تقریروں میں مسجد کے ممبر ومحراب سے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ شروع ہوگئی،کہ فلاں ڈرامے کو بندکیا جائے، حکومت ایکشن لے، اب لوگوں میں بھی تجسس پیدا ہوا اور پورے ملک کی عوام اس ڈرامے کو دیکھنے لگی۔ ظاہر ہے اس ڈرامے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے حکومت یا عدلیہ کو کسی قسم کا ایکشن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
اگر ہم ان مفید علوم سے اسی طرح کنارہ کش رہے تو دوسرے لوگ ہمیں اسی طرح اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہیں گے۔ اگر ہم قوم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قیادت کرنے علوم میں مہارت ،تعلیم اور تربیت بھی ضرور حاصل کرنی ہوگی۔ڈاکٹر محمد رفعت پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ لکھتے ہیں: مسلمان طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ سماجی علوم کی اہمیت کو طبعی علوم سے کم نہ سمجھیں۔ ان علوم کو مغربی دنیا میں جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ صحیح اور غلط تصور کائنات میں امتیاز کریں اور انسانی وجود اور کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ان نشانیوں کا ادراک کریں جو درست تصور کائنات کی تصدیق کرتی ہیں۔ مغربی افکار پر تنقید کے ساتھ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کے مطابق، معلومات کو ترتیب دیں اور نئی معلومات کی دریافت و تحقیق کا کام اس جذبے کے ساتھ انجام دیں کہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنی ہے جو ان عالم گیر قدروں پر استوار ہو جن کو انسان کی فطرت صالحہ پہچانتی ہے اور وحی الٰہی جن کی تصدیق کرتی ہے۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply