اولو الامر کو نصیحت کرنے کے آداب

اولو الامر (امیر، صاحب منصب، علماء) کو نصیحت کرنے کے آداب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحریر سید عبدالوہاب شیرازی

قرآن حکیم میں اللہ ، رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولوالامر کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے۔ اولوالامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام وانتظام ہو۔
اولوالامر سے کیا مراد ہے، اس میں مفسرین اور محدثین کے بے شمار اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اولوالامر کا مصداق ہر درجہ کے حاکموں پر ہوتا، چنانچہ خلیفہ وقت جس کو حکومت عامہ حاصل ہے بدرجہ اولی اس لفظ کا مصداق ہے، بلکہ جب بھی اولی الامر بولا جائے گا تو اس کے متبادل معنی خلیفہ ہی ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر لیول کے حاکموں یہاں تک کہ علماء اور فقہاء کے لیے بھی یہ لفظ ایک خاص اعتبار سے بولا جاتا ہے۔
چونکہ ہم سب انسان ہیں اس لیے انسانوں سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، اور سب کی عقلیں ایک جیسی نہیں ہیں اس لیے اختلافات بھی ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب ہم غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے خود کئی غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ یا اختلافات کو حل کرتے کرتے تفرقے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب تک مسلمانوں کے سروں پر خلافت کی چھتری قائم تھی اس وقت تک اگرچہ کسی بھی شخص کو دلائل کے ساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش تو تھی لیکن کسی کو امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس معاملے میں اتنی سختی تھی کہ کوئی شخص مسلمانی کا دعویٰ کرے اور صدیق اکبر، یا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کا نا کرے اس کا تصور کرنا ممکن نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں متحد بھی تھے اور مضبوط بھی۔ جب کوئی امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کرتا تھا تو اسی بات پر جنگ ہوجایا کرتی تھی۔

اب چونکہ خلافت کی چھتری ہمارے سروں پر نہیں اس لیے اگرچہ ہمارے ہاں دینی جماعتوں اور تنظیموں کی وہ حیثیت تو نہیں کہ کوئی کسی جماعت یا تنظیم کی بیعت یا جماعت کے سربراہ سے وفاداری کا حلف توڑ نہیں سکتا، یاجماعت کو چھوڑ نہیں سکتا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اختلاف کرنے، یا دینی قائدین کے آداب و احترام کے پیمانے بھی بدل گئے ہیں، یا ہم اب اختلاف کرنے یا کسی کو نصیحت کرنے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ و اسلاف کے منہج کے پابند نہیں رہے۔ جب ہم نے کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے ، اور صحابہ کی راہوں پر چلنے میں اپنی کامیابی کا یقین بھی ہے، اور اسلاف واکابر امت پر فخر بھی ہے تو ہمیں اس منہج کو بھی کسی صورت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچا، جسے صحابہ نے اختیار کیااور ہمارے اسلاف جس کی تبلیغ کرتے رہے۔
ہماری یہ بہت بڑی بدقسمتی اور افسوس کا مقام ہے کہ ہماری مروجہ سیاسی جماعتوں میں جس طرح ایک دوسرے پر الزامات، بہتان تراشی اور دوسروں کو رسوا کرنے کا جو سلسلہ پہلے کم پیمانے پر ہوتا تھا اب کچھ نئی جماعتوں کی انٹری کے بعد اور سوشل میڈیا تک ہر بندے کی رسائی کے بعد یہ سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہو چکا ہے۔چنانچہ یہ بات نہ صرف مشاہدے بلکہ عملی تجربے میں بھی آئی ہے کہ فیس بک پر انتہائی خاموش طبع انسان بھی کچھ نہ کچھ غلط صحیح پوسٹ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جو غلط زبان اور مخالفین کو ذلیل کرنے کی روش پہلے صرف مروجہ سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی تھی، اب وہ مذہبی اور دینی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں بھی پیدا ہوچکی ہے۔چنانچہ فیس بک پر ہر وقت ایک جنگ کا سماں ہوتا ہے۔نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے اور نہ کسی کا مقام، پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، اور خاص اختلافات کو ہر غیر متعلقہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاتا ہے۔
بحیثیت مسلمان اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرد ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس معاملے میں بھی سنت رسول، اور منہج رسول و صحابہ کو نہ چھوڑیں، جو غلطیاں ہوچکی ان پر اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کریں۔ زیر نظر مضمون میں اس حوالے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اسلام اس معاملے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے اکابرین امت کا کیا طریقہ تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادع الی سبیل ربک باالحکمۃ والموعظۃالحسنۃ وجادلھم باللتی ہی احسن
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو، اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دو، اور بحث کی ضرورت ہو تو وہ بھی عمدہ اور باوقار طریقے سے کرو۔
بیعت کے مقتضیات میں یہ بات شامل ہے کہ اولی الامر اور صاحب منصب لوگوں کو نصیحت کی جاتی رہے۔چنانچہ تمیم داری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
وعن تمیم الداری رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال: الدین النصیحۃ۔ قلنا: لمن، قال: ولکتابہ ولرسولہ والأئمۃ المسلمین وعامتہم۔ (رواہ مسلم)
فرمایا: دین سرا سر خیرخواہی ہے۔ ہم نے کہا کس کے لیے۔ تو فرمایا: اللہ کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لیے۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مناصحۃ ولاۃ الأمر فلم یختلف العلماء فی وجوبہا اذا کان السلطان یسمعھا ویقبلھا (الاستذکار8/579)
امراء اور لیڈروں کو نصیحت کرنا واجب ہے اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ صاحب منصب اسے سنے اور قبول کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں مسلمانوں کے ائمہ کو نصیحت کرنی چاہیے، اور حق بات میں ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، اور ان کی اطاعت کرنی چاہیے اوررفق و لطف (انتہائی نرمی) کے ساتھ انہیں تنبیہ اور نصیحت کرنی چاہیے۔
صحیح مسلم میں جناب ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ان اللہ یرضی لکم ثلاثاً ویسخط لکم ثلاثا یرضی لکم ان تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئاًوان تعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو ا وان تنا صحوا من ولاہ اللہ امرکم ویسخط لکم ثلاثا قیل و قال و کثرۃ السوال واضاعۃ المال
اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو آپس میں تفرقہ مت پیدا کرو اور اللہ نے جسے تمہارا حکمران بنا دیا ہے اس سے خیر خواہی کرو۔ تین چیزیں تمہارے لئے ناپسند کرتا ہے۔ قیل و قال یعنی بلا مقصد بحث اور ہر مسئلہ میں بال کی کھال اتارنا۔ بہت زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا (اسراف اور فضول خرچی سے منع کرتا ہے)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
لیس منا من لم یرحم صغیرنا وَیَعْرِفْ شَرفَ کَبیرنا۔(ابوداود)
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
أنزولوا الناس منازلھم۔(ابوداود)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ان کا مقام دو۔ یعنی جو جس مقام اور مرتبے کا ہے اسے اس کا مقام دینا چاہیے، سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنے کا طریقہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اولوالامر (امیر،صاحب منصب، علماء وغیرہ) کو نصیحت کرنے کا طریقہ اپنے ارشاد مبارک میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان فرمایا ہے، جسے عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عن عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ: مَنْ أرَادَ أنْ یَّنْصِحَ لِسُلْطَانٍ بأمرٍ فَلا یُبْدِلَہُ عَلَا نِیَۃً، وَ لٰکِنْ لِیَاأخُذْ بِیَدِہ،فَیَخْلُوْ بِہِ، فَإنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَاِلَّا کَانَ قَدْ اَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ لَہُ۔ (اخرجہ احمد فی مسندہ، والطبرانی فی مسند الشامیین، والحکام فی المستدرک، والبیھقی فی السنن الکبری، والطبرانی فی المعجم الکبیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اعلانیہ (اور تشہیر کرکے) نہ کرے۔ بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے ( یعنی اس کے قریب تر ہوکرون ٹو ون ملاقات کی صورت میں کرے) اگر تو وہ نصیحت کو قبول کرلے تو فبہا، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔

صحابہ کرام کا اسوہ:

  • حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ کا عمل
    آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں جو فتنہ کھڑا ہوا تھا جو بعد میں بہت بڑے سانحے پر منتج ہوا، اور پھر ختم نہیں ہوسکا، اس وقت کی بات ہے کہ کسی نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان سے بات کیوں نہیں کرتے؟(یعنی آپ ان کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ اپنی یہ یہ غلطیاں دور کریں) تو انہوں نے کہا
    اَتَروْن اَنی لَا اُکلمُہُ الا اَسْمِعُکُم؟ واللہ لقد کَلَّمْتُہُ فیما بَینی وبَینہُ، ما دونَ اَن اَفتَتِحَ اَمراً لَا اُحِبُّ اَن اَکونَ اَوَّلَ مَن فَتَحَہُ، ولا اَقولُ لِاَحَدٍ، یکونُ عَلَیَّ اَمیراً:
    آپ کا خیال ہے میں تمہارے سامنے ان سے بات کروں گا، اللہ کی قسم میں نے ان سے تنہائی میں آداب کا خیال رکھتے ہوئے جو بات کرنی تھی کرلی ہے ،میں اسے کھولنا نہیں چاہتا تاکہ میں کہیں ایسی بات کا سبب نہ بن جاوں کہ جس کی ابتداء کرنے والا میں نہیں بننا چاہتا۔ (بخاری،مسلم)
    اس حدیث کی تشریح میں امام نووی، عیاض اور امام البانی نے کہا کہ : اسامہ بن زید کی مراد یہ تھی کہ وہ امام(امیر) کی مخالفت کھلم کھلا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ نرمی اور خفیہ طریقے سے جو نصیحت کرنی تھی وہ کرلی ہے۔(فتح الباری، وغیرہ)
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان:
    عن سعید بن جبیر رحمہ اللہ قال: قال رجل لابن عباس رضی اللہ عنہما: آمر امیری بالمعروف؟ قال: اِن خفتَ اَن یقتلک، فلا تؤنب الامام، فان کنت لا بد فاعلا فیما بینک وبینہ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)
    ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کیا میں اپنے امیر کو معروف کا حکم کروں؟ تو ابن عباس نے فرمایا اگر تجھے قتل کا خوف ہو تو نہ کرو اور تم ضرور کرنا ہی چاہتے ہو توایسی رازداری سے کرو جو صرف تمہیں اور اس امیر کو پتا ہو۔
    ان دو روایات سے ہمیں صحابہ کرام کا طریقہ پتا چلا کہ اگر امیر سے اختلاف ہو، یا کسی غلطی پر متنبہ کرنا ہو تو یہ کام رازداری میں کرنا چاہیے، آداب کا خیال رکھنا چاہیے، اور ایسا چرچا نہیں کرنا چاہیے کہ ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگوں میں اس کا چرچا ہو۔
    اولوالامر(امیر وغیرہ) کو نصیحت کرنے کی چار صورتیں ہیں:
  • ایک: یہ کہ امیر کو اس طرح چھپ کر نصیحت کی جائے کہ صرف نصیحت کرنے والے اور امیر کو ہی پتا ہو۔
  • دوم: یہ کہ امیر کو لوگوں کے سامنے کھلم کھلا نصیحت کی جائے باوجود اس کے کہ خفیہ بھی کی جاسکتی تھی۔
  • سوم: یہ کہ امیر کو نصیحت تو خفیہ کی جائے لیکن پھر بعد میں اس کا لوگوں میں چرچا کیا جائے اور اسے پھیلایا جائے۔
  • چہارم: امیر کا رد اس کی پیٹھ پیچھے یعنی لوگوں کی مجلسوں، مواعظ ، خطبات، اور دروس میں کیا جائے۔

اب ان چاروں صورتوں کا ہم جائزہ لیں گے۔

پہلی صورت:

یعنی امیر کو اس طرح چھپ کر نصیحت کی جائے کہ صرف نصیحت کرنے والے اور امیر کو ہی پتا ہو۔
اس طریقے سے امیر کو نصیحت کرنا یا اختلاف کرنا یہ اصل اور بہترین طریقہ ہے، اور یہی شریعت کا حکم اور ہمارے اسلاف کا منہج ہے جنہوں نے ہمیشہ اہل بدعت اور خوارج کی مخالفت اختیار کی۔ اور اسی طریقے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:
عن عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ: مَنْ أرَادَ أنْ یَّنْصِحَ لِسُلْطَانٍ بأمرٍ فَلا یُبْدِلَہُ عَلَا نِیَۃً، وَ لٰکِنْ لِیَاأخُذْ بِیَدِہ،فَیَخْلُوْ بِہِ، فَإنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَاِلَّا کَانَ قَدْ اَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ لَہُ۔ (اخرجہ احمد فی مسندہ، والطبرانی فی مسند الشامیین، والحکام فی المستدرک، والبیھقی فی السنن الکبری، والطبرانی فی المعجم الکبیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اعلانیہ (اور تشہیر کرکے) نہ کرے۔ بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے ( یعنی اس کے قریب تر ہوکرون ٹو ون ملاقات کی صورت میں کرے) اگر تو وہ نصیحت کو قبول کرلے تو فبہا، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔
اس حدیث پاک میں نصیحت کرنے کا شرعی طریقہ بتایا گیا ہے کہ اعلانیہ اور برسربازار نصیحت نہ کی جائے بلکہ تخلیے میں نرمی کے ساتھ نصیحت کی جائے جیسا کہ اسامہ بن زید نے لوگوں کو جواب دیا تھا۔اس طرح کھلم کھلا نصیحت کرنا امرمنکر ہے اور فتنہ پر منتج ہوتا ہے، جبکہ خفیہ طریقے سے نصیحت کرنا اصل طریقہ ہے جو خیرخواہی ہے اور فتنے کا سدباب ہے۔

شیخ ابن باز اسامہ بن زید والی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما فتحوا الشر فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ، وانکروا علی عثمان رضی اللہ عنہ، جھرۃ تمت الفتنۃ والقتال والفساد الذی لا یزال الناس فی آثارہ الی الیوم حتی حصلت الفتنۃ بین علی و معاویۃ وقتل عثمان و علی بأسباب ذلک وقتل جم کثیر من الصحابۃ و غیرہم باسباب الانکار العلنی وذکر العیوب علنا حتا أبغض الناس ولی امرھم وحتی قتلوہ، نسأل اللہ العافیۃ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں جب لوگوں نے کھلم کھلا اور اعلانیہ ان پر تنقید کرنا شروع کی تو اسی سے فتنہ پیدا ہوا اور یہی فتنہ حضرت عثمان اور حضرت علی سمیت بے شمارصحابہ اور دیگر لوگوں کے قتل کا ذریعہ بنا، کیونکہ جب امراء پر اعلانیہ تنقید ہونے لگی، اور اعلانیہ ان کے عیوب بیان کیے جانے لگے تو لوگ غضبناک ہوئے اور معاملہ بڑھتے بڑھتے جنگ تک پہنچ گیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے ہیں( المعلوم23)

*۔۔۔حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کا فرمان:
وعن سعید بن جمہان قال: اَتیتُ عبداللہ بن ابی اوفی وھو محجوب البصر، فَسَلَّمْتُ علیہ، قالَ لی: مَن انتَ؟ فقلتُ: انا سعید بن جُمہان، قال: فَما فَعلَ وَالِدُکَ؟ قال: قلتُ: قَتَلَتْہُ الْاَزَارِقَۃُ، قال: لَعنَ اللہُ الاَزارقۃَ، لعن اللہ الازارقۃَ، حدثنا رسول اللہ ﷺ اَنَّھُمْ کِلابُ النار، قال: قُلتُ: اَلْاَزَارِقَۃُ وَحْدھُم اَمِ الْخَوارجُ کُلُّھَا؟ قال: بل الخوارجُ کُلَّھَا۔ قال: قلتُ: فَاِنَّ السُّلْطَانَ یَظْلِمُ النَّاسَ، وَیٰفْعَلُ بِھِم، قال: فَتَنَاوَلَ یَدِی فَغَمَزَھَا بِیَدِہِ غَمْزَۃً شَدِیْدَۃً، ثم قال: وِیْحَکَ یاابن جُمھانَ عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ، عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ،اِن کان السلطانُ یَسْمَعُ مِنکَ، فَأتِہِ فِی بَیتِہِ، فَأخْبِرْہُ بِمَا تَعلمُ، فَان قَبِلَ مِنکَ، وَالا فَدَعْہُ، فانک لَسْتَ بِأعْلَمَ مِنہُ (مسند احمد بن حنبل)

امام احمد نے اپنی مسند میں سعید بن جمہان سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ملا، اور وہ نابینا ہو چکے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا کون ہو تم؟ میں نے کہا سعید بن جمہان، تو انہوں نے کہا تمہارے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ تو میں نے کہا ان کو ازارقہ نے قتل کردیا، تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر، اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا کہ وہ جہنم کے کتے ہیں، تو میں نے کہا ازارقہ اکیلا ہی یا سارے خوارج؟ تو انہوں نے کہا سارے خوارج۔ میں نے ان سے کہا: بے شک امیر لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ایسا ایسا کرتا ہے۔ تو انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبایا اور فرمایا: ویحک یا ابن جمھان۔ تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم کو پکڑو، تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم کو پکڑو، اگر امیر تیری بات سنتا ہے تو’’ اس کے گھر میں جاکر اسے اطلاع دے‘‘ اگر تیری بات مان لے تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دے تو اس سے زیادہ نہیں جانتا۔
اس روایت میں ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ نے کس طرح یہ بات سمجھائی کہ امیر کو نصیحت خفیہ کرنی چاہیے نہ کہ اعلانیہ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت تھی، ان کا قول و فعل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

*۔۔۔ابن نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یختار الکلام مع السلطان فی الخلوۃ علی الکلام معہ علی رؤوس الأشھاد۔
امیر یا صاحب منصب کو خلوت میں جاکر سمجھانا زیادہ بہتر ہے اس سے کہ سب کے سامنے سمجھایا جائے۔(تنبیہ الغافلین)

*۔۔۔امام شوکانی فرماتے ہیں:
ینبغی لمن ظہر لہ غلط الامام فی بعض المسائل أن یناصحہ ولا یظھر الشناعۃ علیہ ولی رؤوس الأشھاد بل کما ورد فی الحدیث أنہ یأخذ بیدہ ویخلو بہ ویبذل لہ النصیحۃ ولا یذل سلطان اللہ۔
جس شخص کو امیر کی کوئی غلطی نظر آئے تو وہ اسے تنہائی میں سمجھائے اور اس کی برائی کو سب کے سامنے نہ اچھالے جیسا کہ حدیث(اوپر عیاض والی حدیث) میں طریقہ بتایا گیا ہے، اور امیر کو ذلیل نہ کرے۔(السیل4/556)
ہمارے اسلاف سے یہی منقول ہے کہ صاحب منصب اور امراء سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ان سے کفر اور ان کے خلاف خروج لازم نہیں آتا، بلکہ ان کو شرعی طریقے سے نصیحت کرنا ہی واجب ہے جو انتہائی نرمی سے ہواور مجالس اور لوگوں کے مجموں میں تذکرے نہ کیے جائیں۔(نصیحۃ مھمۃ30)

*۔۔۔علامہ سعدی فرماتے ہیں:
وقال العلامۃ السعدی رحمہ اللہ: علی من رأی منہم ما لا یحل أن ینبھھم سراً لا علناً بلطف وعبارۃ تلیق بالمقام۔ (الریاض الناضرۃ50)
جو شخص کوئی ناگوار بات دیکھے تو خفیہ طریقے سے تنبیہ کرے نہ کہ اعلانیہ۔ نرمی کے ساتھ اور اس کے شایان شان کلمات کے ساتھ نصیحت کرے۔

*۔۔۔شیخ ابن باز فرماتے ہیں:
الطریقۃ المتبعۃ عند السلف النصیحۃ فیما بینھم وبین السلطان والکتابۃ الیہ او الاتصال بالعلماء الذین یتصلون بہ حتی یوجہ الی الخیر۔ وانکار المنکر یکون من دون ذکر الفاعل فینکر الزنی وینکر الخمر وینکر الربا مِن دون ذکر مَن فعلہ ویکفی انکار المعاصی والتحذیر منہا مِن غیر ذکر اَن فلاناً یفعلھا لا حاکم ولا غیر حاکم (المعلوم22)
امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنے کا جو طریقہ ہمارے اسلاف سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ خط کتابت کی جائے، یا جو علماء امیر کے مقربین ہیں ان کے واسطے سے نصیحت کی جائے کہ وہ خیر کی طرف امیر کو متوجہ کریں۔اور کسی منکر کا انکار فاعل کا ذکر کیے بغیر ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا زنا، شراب، سود پر رد اس انداز سے کیا جائے کہ نہی عن المنکر اور اللہ کا ڈراوا تو ہو لیکن فاعل کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

دوسری صورت:

امیر کو لوگوں کے سامنے کھلم کھلا نصیحت کی جائے باوجود اس کے کہ خفیہ بھی کی جاسکتی تھی۔
یہ صورت حرام ہے کیونکہ:
1۔ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ والی حدیث کے خلاف ہے جس میں خلوت کا حکم اور اعلانیہ کی ممانعت ہے۔
2۔ اثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے جیسے اسامہ بن زید اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان اور عمل تھا۔
3۔ اس وجہ سے بھی حرام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من اھان سلطان اللہ فی الارض اھانہ اللہ (ترمذی) جس نے امیر کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔

*۔۔۔شیخ صالح بن عبدالعزیز بن عثیمین ، مقاصد اسلام میں لکھتے ہیں:
جب امراء کے پیچھے باتیں ہونی شروع ہوجائیں، اور کھلم کھلا نصیحتیں کی جانے لگیں اور اس کی تشہیر کی جانے لگے اور ان کو ذلیل کیا جانے لگے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ اس طرح کرنے والوں کو ذلیل کرے گا۔

*۔۔۔شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذا صدر المنکر مِن امیر او غیرہ ینصح برفق خفیۃ ما یستشرف ای مایطلع علیہ احدٌ فان وافق والا استلحق علیہ رجلا یقبل منہ بخفیۃ ۔(نصیحۃ مہمۃ33)
جب کسی امیر وغیرہ سے کوئی منکر سرزد ہوجائے تو نرمی اور چھپ کر نصیحت کرنی چاہیے۔ اگر مان جائے تو ٹھیک ورنہ کسی شخص کے واسطے سے خفیہ نصیحت کرے۔

تیسری صورت

امیر کو نصیحت تو خفیہ کی جائے لیکن پھر بعد میں اس کا لوگوں میں چرچا کیا جائے اور اسے پھیلایا جائے۔
یہ صورت حرام ہے کیونکہ:
1۔ یہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ والی حدیث کے خلاف ہے جس میں خلوت کا حکم اور اعلانیہ کی ممانعت ہے۔
2۔یہ اثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے جیسے اسامہ بن زید اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان اور عمل تھا۔
3۔یہ ریا کاری ہے اور اخلاص کی کمی ہے۔
4۔ یہ فتنہ ہے، اور جماعت میں تفرقہ اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔
5۔ امیر کی اہانت ہے جس پر اللہ کی طرف سے سخت وعید آئی ہے (جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے)

*۔۔۔صالح بن عبدالعزیز عثمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جب امیر یا صاحب منصب کے بارے اس کی پیٹھ پیچھے بات کی جائے، یا علی الاعلان اور تشہیر کی صورت میں نصیحت کی جائے تو یہ اس کی اہانت ہے جس پر اللہ کی طرف سے وعید آئی ہے لہٰذا اس حوالے سے ان باتوں کی رعایت کرنا ضروری ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کرلیا ہے (مقاصد اسلام393)
چوتھی صورت
امیر کا ’’رد‘‘ اس کی پیٹھ پیچھے یعنی لوگوں کی مجلسوں، مواعظ ، خطبات، اور دروس(یعنی پبلک پلیس) میں کیا جائے۔
یہ صورت بھی حرام ہے کیونکہ:
1۔یہ غیبت ہے اور بہتان ہے۔ اور ان دونوں چیزوں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
2۔یہ اس لیے بھی جائز نہیں کہ اس طرح لوگوں میں چرچا کرنے سے فتنہ و فساد کھڑا ہوتا ہے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا أُنَبِّءُکُمْ مَاالْعَضْہُ؟ ہِیَ النَّمِیْمَۃُ: القَالَۃُ بَینَ الناس۔
کیا میں تمہیں بتاوں العضہ کیا ہے؟ وہ چغلی ہے یعنی لوگوں میں چرچا کرنا۔ (مسلم)
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ انہ قال: أتدرون مَالْعَضْہُ؟ قالوا اللہ ورسولہ اعلم۔ قال: نَقل الحدیثِ مِن معضِ الناس الی بعضٍ لِیُفسِد بَینھم۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو ’’العضہ‘‘ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ تو فرمایا: کچھ لوگوں کی باتوں کو دوسرے لوگوں تک اس لیے پہنچانا کہ فساد پیدا ہو۔
(ہوسکتا ہے کوئی اس نیت سے نہ پہنچا رہا ہو لیکن اس کے عمل سے فساد اور تفرقہ اور ایک دوسرے سے بغض و عداوت اور نفرت پیدا ہوتی ہو تو بھی اس سے بچنا چاہیے)

3۔ یہ چوتھی صورت بھی عیاض بن غنم کی اس حدیث کے خلاف ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔
4۔ آثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے۔
5۔ امیر کی اہانت ہے جس کی ممانعت کی گئی ہے۔
6۔ یہ اس لیے بھی جائز نہیں کہ یہی چیز بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ ، اور قتل قتال تک پہنچا دیتی ہے۔ (جیسا کہ اکثر ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہم خیال اور ایک ہی نظریے کہ لوگ اس طرح کی حرکتوں سے آپس میں لڑ پڑتے ہیں)۔

*۔۔۔عبداللہ بن عکیم الجھنی
ابن سعد نے عبداللہ بن عکیم الجھنی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
لاأعین علی دم خلیفۃ ابدا بعد عثمان۔ فقیل لہ: یا ابا معبد أَوَ أعَنْتَ علی دَمِہِ؟ فیقول انی أعد ذکر مساویہ عوناً علی دمِہِ۔
میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد آئندہ کسی خلیفہ کے قتل میں مدد نہیں کروں گا۔ تو کسی نے حیرانگی سے پوچھا کیا آپ نے عثمان کے قتل میں مدد کی؟ تو انہوں نے کہا میں صرف باتیں کرنے کو بھی قتل کے مساوی سمجھتا ہوں۔
لہٰذا ہمیں یہاں رک کر ذرا سوچنا چاہیے کہ کسی کے قتل میں اعانت بات سے بھی ہوتی ہے۔
امراء اور صاحب مناصب لوگ محض معاصی کے ارتکاب سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتے، بلکہ ایسی صورت میں شرعی اور ماثور طریقے سے نصیحت کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، اور وہ نصیحت ایسی ہو جس میں خیرخواہی ہو،نرمی اور لطف و کرم والا معاملہ ہو، نہ کہ لوگوں کے مجموں میں یا ایسے پلیٹ فارم پر جہاں ایک بار بات کہہ دی جائے تو واپس لوٹانا مشکل ہوجاتا ہے، جیسے سوشل میڈیا وغیرہ کیونکہ اس سے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور بغض پیدا ہوتا ہے۔
کیا امیر کے خلاف خروج کرنا یا خروج کی دعوت دینا صرف تلوار کے ساتھ ہی ہوتا ہے؟

*۔۔۔علامہ عبدالعزیز الراجحی فرماتے ہیں:
وَسُءِلَ العلامۃ عبدالعزیز الراجحی: ھل الخروج علی الحکام یکون بالسیف فقط أم یکون باللسان أیضاً کمن ینتقدم الظلم مثلا أو من یطالب بتغییرالمنکرات علانیۃً عن طریق الاعلام والقنوات الفضائیۃ۔
فأجاب: نعم الخروج علی الولاۃ یکون بالقتال وبالسیف ویکون ایضا بذکرالمعیب ونشرھا فی الصحف، او فوق المنابر، اوفی الانترنت، فی الشبکۃ او غیرھا، لأن ذکرالمعایب ھذہ تبغِّض الناس فی االحکام ثم تکون سببا فی الخروج علیہم۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ لما خرج علیہ (الثوار) نشروا معایبہ أولاً بین الناس وقالوا: انہ خالف الشیخین الذین قبلہ ابوبکروعمر، وخالفھما فی التکبیر وأخذ الزکاۃ علی الخیل وأتم الصلاۃ فی السفر وقرب أولیاء ھوأعطاھم الولایات۔ فجعلوا ینشرونھا فاجتمع(الثوار) ثم أحاطوا ببیتہ وقتلوہ۔
فلا یجوز للانسان أن ینشرالمعایب ھذا نوع من الخروج، فإذانُشرت المعیب۔ معایب الحکام والولاۃ علی المنابر، وفی الصحف، والمجلات، وفی الشبکۃ المعلوماتیۃ أبغض الناس الولاۃ وألَّبوھم علیہم فخرج الناس علیہم۔(شرح المختار فی اصول السنۃ للراجحی 289)
عالم عرب کے مشور عالم علامہ عبدالعزیز الراجحی سے پوچھا گیا کہ کیا حکام کے خلاف خروج صرف تلوار کے ساتھ ہی ہوتا ہے یا کسی اور طریقے سے بھی؟
تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں امراء کے خلاف خروج جنگ وجدال اور تلوار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ان کے عیوب کو بیان کرنے اور ان کی تشہیر کرنے سے بھی چاہے وہ تشہیر پرنٹ میڈیا پر ہو یا الیکٹرانک میڈیا پر، چاہے وہ منبر ومحراب پر ہو یا انٹرنیٹ پر۔ کیونکہ اسی سے لوگوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے اور پھر نوبت خروج تک پہنچ جاتی ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ، پہلے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا اور ان کے خلاف لوگوں میں خوب چرچا کیا گیا اور کہا گیا کہ حضرت عثمان نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے جو حضرت ابوبکر اور عمر کا تھا، اب یہ گھوڑوں پر بھی زکو? وصول کررہے ہیں، سفر میں پوری نماز پڑھتے ہیں، رشتہ داروں کو نوازتے ہیں، اور ان کو حکومتی مناصب پر بٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کی باتوں کو پہلے خوب پھیلایا گیا اور پھر ان کے گھر کا گھیراو کیا گیا اور ان کو شہید کردیا گیا۔ (شرح المختار فی اصول السنۃ للراجحی 289)

*۔۔۔علامہ احمد النجمی فرماتے ہیں:
وقال العلامۃ احمدالنجمی رحمہ اللہ: والخروجُ علیہم ینقسم الی قسمین:
۱۔ خروج فعلی بالسیف وما فی معناہ۔
۲۔خروج قولی: أن یتکلم الانسانُ فی ولاۃ الامر، ویقدح فیھم، ویذمھم، دعوۃ الی الخروج علیہم۔(فتح الرب الغنی بتوضیح شرح السنۃ للمزنی51)
امیر کے خلاف خروج دو طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ایک تلوار کے ساتھ۔
2۔ خروج قولی، یعنی انسان امیر کے بارے کلام شروع کردے اور اس کی مذمت شروع کردے تو یہ دراصل خروج کی طرف دوسروں کو دعوت دینا ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ اکثر خروج اور قتل قتال اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بعد میں آتی ہے پہلے زبان سے ہی آغاز ہوتا ہے۔

*۔۔۔علامہ محقق ابن عثیمین فرماتے ہیں:
لایمکن خروج بالسیف الا وقد سبقہ خروج باللسان
خروج باالسیف اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک خروج باللسان نہ ہو۔ کیونکہ لوگ اس وقت تک لڑنے بھڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے جب تک کہ ان کو ابھارا نہ جائے۔

*۔۔۔علامہ صالح الفوزان سے پوچھا گیا کہ
کیا خروج باللسان بھی خروج باالسیف ہی کی طرح ہے؟
الخروج علی الحاکم بالقول قد یکون اشد من الخروج بالسیف، بل الخروج بالسیف مترتب علی الخروج بالقول۔
تو انہوں نے فرمایا: خروج بالقول زیادہ سخت ہے خروج بالسیف سے، بلکہ خروج بالسیف دراصل خروج بالقول ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

*۔۔۔علامہ مجاہد ربیع بن ہادی سے یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
بدایۃُ الخروج بالکلام، الکلام فی تھییج الناس وتثویرھم وشحنہم والقاء البغضاء بین الناس، ھذہ فتنۃ قد تکون اشد من السیفہا یکون السیف
خروج کا آغاز ہی کلام سے ہوتا ہے۔ کیونکہ کلام ہی لوگوں کو ابھارتا بھی ہے اور ان کے دلوں میں امیر سے بغض پیدا کرتا ہے، کلام کا فتنہ سیف کے فتنے سے زیادہ سخت ہے۔

*۔۔۔عبداللہ بن عکیم فرماتے ہیں:
لاأُعینُ علی دَمِ خلیفۃ أبدا بعد عثمانَ: قال فیقالُ لہ: یاأبا معبدٍ أَوَ أَعَنتَ علی دَمِہِ؟ فقال: إنی لأَعُدُّذِکْرَ مَسَاوِیہِ عَوْناً عَلَی دَمِہِ۔(رواہ ابن سعد فی الطبقات6/115، واخرجہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ6/362 وغیرہما)
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بعد کسی خلیفہ کے خون کرنے پر معاونت نہیں کی۔ ان سے کہا گیا اے ابو معبد! کیا آپ نے ان کے قتل کرنے پر معاونت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ: میں ان کی کوتاہیاں بیان کرنے کو گویا کہ ان کے قتل پر معاونت شمار کرتا ہوں۔( یعنی میں ان کی کوتاہیاں بیان کیا کرتا تھا، اور یہی قتل پر معاونت ہے)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امیر کے خلاف باتیں کرنا اور ان کے خلاف لوگوں میں چرچا کرنا، چاہے منبر ومحراب کے ذریعے یا میڈیا کے ذریعے یہ درست عمل نہیں ہے کیونکہ اس سے لوگوں میں امیر کی اہانت اور عدم اطاعت پیدا ہوتی ہے جو فتنے اور تفرقے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ امیر یا صاحب منصب کے خلاف اس طرح محاذ نہیں قائم کرنا چاہیے تو وہ دلیل کے طور پر ترمذی کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے:
عن ابی سعید الخدری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن مِن أعظم الجہاد کلمۃَ عدلٍ عِندَ سُلطانٍ جائرٍ۔
ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمان رسول برحق ہے، لیکن اصل مسئلہ اس حدیث کو سمجھنے کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں عندسلطان کا لفظ ہے، عند یعنی پاس،سامنے۔
دوسری بات یہ کہ یہ حدیث اعلان پر دلالت نہیں کرتی۔ بلکہ ہمیں اس حدیث کو عیاض بن غنم کی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنا چاہیے جس میں اعلانیہ رد اور نصیحت سے منع کیا گیا ہے۔

*۔۔۔امام احمد فرماتے ہیں:
نصیحت کرنے میں دو چیزیں ہونی چاہیے: 1۔ نرمی، 2۔حاضری، یعنی آمنے سامنے نہ کہ لوگوں میں چرچے۔

*۔۔۔امام نووی فرماتے ہیں:
تنبیہ اور نصیحت نہایت نرمی سے ہونی چاہیے۔(شرح مسلم)

*۔۔۔علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:
روساء کو ان کلمات اور اس طریقے سے مخاطب کرنا چاہیے جو شرعا، عقلا اور عرفا مطلوب ہے۔(بدائع الفوائد)

*۔۔۔عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:
ان الجماعۃ حبل اللہ فاعتصموا منہ بعروتہ الوثقی۔
جماعت اللہ کی رسی ہے، اس کو مضبوط کڑے کی طرح پکڑلو۔(آداب الشریعہ)

*۔۔۔ابن رجب الحنبلی فرماتے ہیں:
ائمۃ المسلمین کی اصلاح کرنا، ان کی رہنمائی کرنا ان کو انصاف پر قائم رکھنا، حق پر ان کی مدد کرنا اور منکر پر ان کو نصیحت اور تنبیہ کرنا ضروری ہے لیکن نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ، اور علیحدگی میں۔(جامع العلوم والحکم)۔

*۔۔۔مشہور محدث امام یحی بن معین فرماتے ہیں:
میں جب کسی کی کوئی خطا دیکھتا ہوں تو پردہ پوشی کرتا ہوں، اور اس کی طرف غلط طریقے سے متوجہ نہیں ہوتا بلکہ تنہائی میں اسے سمجھاتا ہوں اگر مان جائے تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دیتا ہوں۔(سیر اعلام النبلاء )

*۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے سامنے کہا:
یاأمیرالمؤمنین: إنک أخطأت فی کذا وکذا، وأنصحُکَ بِکذا وبکذا
یاامیرالمومنین آپ نے یہ اور یہ غلطی کی ہے، اور میں آپ کو یہ اور یہ نصیحت کرتا ہوں۔
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إذا نصحتَنی فانصھنی بینی وبینک، فإنی لا آمن علیکم ولا علی نفسی حین تنصحنی علناً بین الناس۔
جب تو مجھے نصیحت کرنا چاہے تو تنہائی میں کیا کر۔ کیونکہ اس طرح برسرعام نصیحت کرنے سے شاید میں اپنے آپ پر قابو نہ پاسکوں اور تو مجھ سے محفوظ نہ رہ سکے۔

*۔۔۔حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکان السلف إذا أرادوا نصیحۃ أحدٍ، وعظوہ سراً، حتی قال بعضہم: مَن وعظ أخاہ فیما بینہ وبینہ، فہی نصیحۃ، ومن وعظہ علی رؤوس الناس فإنما وَبخہ۔
ہمارے اسلاف جب کسی کو نصیحت کرنا چاہتے تو خفیہ نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: جس نے اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کی تو یہ نصیحت ہے، اور جس نے سب کے سامنے کی تو یہ ملامت کرنا اور ذلیل کرنا ہے۔

*۔۔۔فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المؤمن یستر و ینصح، والفاجر یھتک ویعیر
مومن ستر رکھتا اور نصیحت کرتا ہے، جبکہ فاجر ہتک کرتا اور عار دلاتا ہے۔(جامع العلوم77)
فضیل بن عیاض کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن رجب کہتے ہیں:
فہذا الذی ذکرہ الفضیل من علامات النصح، وھو ان النصح یقترن بہ الستر، والتعییر یقترن بہ الإعلان۔
یہ جو فضیل نے کہا یہ اصل نصیحت ہے، نصیحت میں پردہ پوشی ہوتی ہے جبکہ اعلان میں ہتک اور عار ہوتی ہے۔(الفرق بین النصیۃ والتعییر36)۔

*۔۔۔امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نصیحت ’’سراً ‘‘ کرنا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جو اپنے بھائی کو اعلانیہ نصیحت کررہا ہوتاہے وہ اس کی برائی کررہا ہوتا ہے(یا اس کو مزید برا کررہا ہوتا ہے) اور جو خفیہ نصیحت کرتا ہے وہ اسے مزید مزین کررہا ہوتا ہے(یا مزید اچھا کررہا ہوتا ہے۔ (روضۃ العقلاء 196)۔

*۔۔۔عبدالعزیز بن ابی داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پہلے لوگ جب نصیحت کرتے تھے تو نرمی سے کرتے تھے، چنانچہ ان کو اس امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر اجر ملتا تھا۔ اور اب، اب تو جلاتے ہیں، غصہ دلاتے ہیں، ہتک کرتے ہیں۔(جامع العلوم 77)

*۔۔۔امام ابن حزم فرماتے ہیں:
إذا نصحت فانصح سراً، لاجھراً، أو بتعریضٍ لابتصریحٍ، إلالمن لایفہم، فلا بُدَّ مِن التصریح لہ۔
جب تو نصیحت کرے تو خفیہ کر نہ کھلم کھلا، یا اشاروں کنایوں میں کر نہ کہ صراحت کے ساتھ۔ سوائے اس کے کہ وہ اگر اشارے کو نہ سمجھ سکے تو پھر صراحت ضروری ہے۔(رسائل ابن حزم)
اور مزید فرماتے ہیں: اگر تیری نصیحت میں خشونت ہوگی تو یہ تنفیر کا باعث بنے گی، اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں۔ فقولا لہ قولا لینا(طہ) اے موسی و ہارون تم فرعون سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:
یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا
آسانی کرو مشکل نہ کرو، بشارت دو، متنفر نہ کرو (متفق علیہ)

*۔۔۔امام شوکانی فرماتے ہیں:
اگر امام یا امیر کی بعض مسائل میں غلطیاں نظر آئیں تو اسے نصیحت کی جائے اور لوگوں کے سامنے اس کی برائی نہ بیان کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی (ون ٹو ون ملاقات) میں نصیحت کرواور امیر کو ذلیل نہ کرو۔ (السیل الجرار)

*۔۔۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں:
إذا صدر المنکر من أمیر أو غیرہ أن ینصح برفق خفیۃ ما یشرف علیہ أحد فإن وافق، والا استلحق علیہ رجلاً یقبل منہ بخفیۃ۔
جب امیر یا کسی اور سے کوئی منکر صادر ہوجائے تو اسے نرمی اور ایسے خفیہ طریقے سے نصیحت کی جائے کہ کسی اور کو پتا نہ چلے، اگر تو مان لے تو ٹھیک ورنہ کسی دوسرے ذریعے اور شخص کے ذریعے خفیہ نصیحت کی جائے۔(الدرر السنیۃ)۔

*۔۔۔شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لیس من منہج السلف التشہیر بعیوب الولاۃ وذکر ذلک علی المنابر، لان ذلک یفضی الی الانقلابات، وعدم السمع والطاعۃ فی المعروف، ویفضی الی الخروج الذی یضر ولا ینفع، ولکن الطریقۃ المتبعۃ عندالسلف النصیحۃ فیما بینھم وبین السلطان، والکتابۃ الیہ، اوالاتصال بالعلماء الذین یتصلون بہ حتی یوجہ الی الخیر وانکار المنکر یکون من دون ذکر الفاعل، فینکر الزنی وینکر الخمر وینکر الربا من دون ذکر من فعلہ، ویکفی انکار المعاصی والتحذیر منہا من غیر ان فلانا یفعلھا، لاحاکم ولا غیر حاکم، ولما وقعت الفتنۃ فی عہد عثمان، قال بعض الناس لاسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ: ألا تنکرعلی عثمان، قال: أنکر علی عندالناس لکن أنکر علیہ بینی وبینہ، ولا افتح باب شرعلی الناس، ولما فتحوا الشر فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ وانکروا علی عثمان جھرۃ تمت الفتنۃ القتال والفساد الذی لا یزال الناس فی آثارہ الی الیوم حتی حصلت الفتنۃ بین علی ومعاویۃ وقتل عثمان وعلی باسباب ذلک۔ وقتل جمع کثیر من الصحابۃ وغیرہم باسباب الانکار العلنی وذکر العیوب علنا، حتی أبغض الناس ولی امرھم وحتی قتلوہ، نسأل اللہ العافیۃ( نصیحۃ الامۃ فی جواب عشرۃ أسئلۃ مہمۃ)
ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ اولوالامر اور صاحب منصب لوگوں کے عیوب کی منبروں(میڈیا) پر تشہیر کی جائے، کیونکہ یہ چیز لوگوں کو سمع و طاعت فی المعروف سے بھی دور کردیتی ہے، اور ایسی بغاوت پر ابھارتی ہے جس کا نقصان ہے فائدہ کوئی نہیں۔ ہمارے اسلاف سے اصل طریقہ جو منقول ہے وہ تنہائی ( ون ٹو ون ملاقات کی شکل ) میں نصیحت کرنا ہے، اور خط وکتابت کرنا ہے، یا ان کے مقربین علماء4 وغیرہ کے ذریعے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے۔اور یہ اصلاح کی کوشش ایسے کرنی چاہیے جس میں گناہ کا ذکر تو ہو لیکن فاعل کا ذکر نہ ہو۔ یہی وہ طریقہ تھا جس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ایسا فتنہ برپا ہوا جو حضرت عثمان، حضرت علی ، اور بے شمار صحابہ کرام کی شہادت کی وجہ بنا اور آج تک ختم نہیں ہوسکا۔کیونکہ وہاں بھی کچھ لوگوں نے علی الاعلان عیوب کو بیان کرنا شروع کردیا تھا، جس سے لوگ متنفر ہوئے اور امیرالمومنین کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔

*۔۔۔امام محمد بن صالح فرماتے ہیں:
النصح لولاۃ الأمور امر مہم وھو أھم من النصح لعامتھم ولکن کیف یکون ذلک۔ لا بد من سلوک الحکمۃ فی النصیحۃ لھم۔ فمن النصیحۃ لأمراء:

اولا: أن تعتقد وجوب طاعتھم فی غیر معصیۃ اللہ ھذا من النصیحۃ لھم لأنک إذا لم تعتقد ذلک فلن تطیعہ۔ ومن الذی أوجبھا اللہ عزوجل فی قولہ تعالیٰ: یاأیھاالذین آمنوا أطیعوا اللہ والرسول وأولی الأمر منکم۔ وفی قول النبیﷺ وأطیعوا وفی مبایعۃ الصحابۃ لہ علی ذلک کما فی حدیث عبادۃ بن الصامت: بایعنا رسول اللہﷺ علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا ویسرنا وعسرنا علی أثرۃ علینا۔

ثانیاً: أن نطیع أوامرھم الا فی معصیۃ اللہ۔ وان عصوا یعنی لوکانوا فسَّاقاً یشربون الخمر۔ ویعاقرون النساء۔ ویلعبون القمار یجب علینا طاعتھم۔ حتی فی ھذہ الحال وان عصوا۔ لکن ان أُمروا بالمعصیۃ۔ ولو کانت أدنیٰ معصیۃ۔ ولو لم تکن کبیرۃ۔ فانہ لا یجب أن نطیعھم۔ ولکن ھل نُنابذ أو أن نقول لا نستطیع أن نفعل۔ ونقابلھم بھدؤ لعلھم یرجعون۔ یتعین لثانی۔ لأن منابذتھم قد تؤدی الی أن یرکبوا رؤوسھم۔ وأن یُلزِموک ویُکرھوکَ علی الشیء۔ لکن اذا أتیت بھدؤ ونصیحۃ۔ وقلت: ربنا وربک اللہ۔ واللہ عزوجل نھی عن ھذا۔ والذی أوجب علینا طاعتکم ھواللہ عزوجل۔ لکن فی غیر المعصیۃ۔ وتُھادؤہ۔ فإن اھتدی فھذا ھوالمطلوب۔ وإن لم یھتدی وأجبر فأنت معذور لأنک مُکرہ۔

ثالثا: إبداءُ خطأھم فیما خالفوا فیہ الشرع بمعنی أن لا نسکت ولکن علی وجہ الحکمۃ والا خفاء ولھذا أمرالنبی علیہ الصلاۃ والسلام اذا رأی الانسان من الامیر شیئا أن یمسک بیدہ ذکر النصیحۃ أن تمسک بیدہ وأن تکلمہ فیما بینک وبینہ لاأن تقوم فی الناس وتنشر معایبہ لان ھذا یحصل بہ فتنۃ عظیمۃ السکوت عن الباطل لا شک أنہ خطا، لکن الکلام فی الباطل الذی یؤدی الی ما ھو أشد ھذا خطا ایضا، فالطریق السلیم الذی ھو النصیحۃ وھو من دین اللہ عزوجل ھو ان یاخذ الانسان بیدہ، ویکلمہ سراً، ویکاتبہ سراً، فان أمکن أن یوصلہ ایاہ فھذا المطلوب والا فھناک قنوات، الانسان البصیر یعرف کیف یوصل ھذا النصیحۃ الی الامیر بالطریق المعروف۔

خامساً: احترامہ الاحترام اللائق بہ، ولیس احترام ولی الامر کاحترام عامۃ الناس، ربما یاتیک فاسق من عامۃ الناس لا تبالی بہ، ولا تلتفت الیہ، ولا تکلمہ، ولکن ولی الامر علی خلاف ذلک، ولا سیما اذا کا امام الناس، لأنک اذا أظھرت أنک غیر مبالٍ بہ، فإن ھذا ینقص من قدرہ أمام الناس، ونقصان قدر الامیر أمام الناس لہ سلبیات خطیرۃ جدا، ولا سیما اذا کثرت البلبلۃ وکثر الکلام فانہ یؤدی الی مفاسد عظیمۃ، وکما یتبین لمن کان منکم متأمّلاً احوال الناس الیوم۔(خطبۃ مسجلۃ)
امراء کو نصیحت کرنا ایک مشکل ترین کام ہے، اور یہ عام لوگوں کو نصیحت کرنے کی نسبت زیادہ اہم بھی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے کیا جائے؟ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ کام حکمت و بصیرت سے کیا جائے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل امور نہایت ضروری ہیں:

اول*۔۔۔:
یہ کہ امیر کی اطاعت فی المعروف واجب ہے، یہ ان کے لیے خیرخواہی ہے، کیونکہ جب آپ یہ بنیادی بات ہی نہیں سمجھیں گے تو اطاعت کیسے کریں گے۔ اور یہ اطاعت کس نے واجب کی ہے؟ اللہ عزوجل نے واجب کی ہے جیسا کہ فرمایا: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولی الامر کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ اور صحابہ کرام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیعت لی اس میں یہ بات شامل تھی، جیسا کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے: کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ سنیں گے، اور اطاعت کریں گے، تنگی میں بھی آسانی میں بھی، دل مانے یا نہ مانے اور تب بھی جب ہم پر کسی اور کو ترجیح دی جائے، اور امرا سے جھگڑا نہیں کریں گے یہاں سوائے اس وقت کے جب ان سے کھلم کھلا کفر سرزد نہ ہوجائے۔

دوم*۔۔۔:
ہمیں امراء کی اطاعت فی المعروف کرنی چاہیے، اگرچہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے۔ یعنی اگر امراء فساق ہوں شراب پیتے ہوں، جوا کھیلتے ہوں تب بھی اطاعت فی المعروف واجب ہے۔ہاں اگر وہ کسی معصیت کا حکم کریں تو پھر اطاعت نہیں، اگرچہ وہ معمولی سی معصیت کیوں نہ ہو۔

سوم*۔۔۔:
نصیحت ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں لوگوں کو بغاوت پر نہ ابھارا گیا ہو۔ اور بغاوت پر ابھارنا صرف یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں سے کہا جائے بغاوت کرو۔ بلکہ بغاوت پر ابھارنا یہ بھی ہے کہ امیر کی خوبیوں کو چھپایا جائے اور خامیوں کا چرچا کیا جائے۔ کیونکہ انسان بشر ہے، جب اس کے سامنے کسی کی خامیاں بیان کی جاتی ہیں اور خوبیاں چھپائی جاتی ہیں تو انسان کے دل میں اس آدمی سے بغض پیدا ہوجاتا ہے۔ (اور یہی بغض بغاوت، سرکشی، عدم اطاعت اوراجتماعیت کو توڑ کر افتراق کا سبب بنتا ہے)۔

چہارم*۔۔۔:
نصیحت میں حکمت و بصیرت سے کام لینا چاہیے۔ یعنی امیر کو نصیحت کرتے ہوئے پہلے ان امور کی طرف متوجہ کرنا چاہیے جو شریعت(قرآن و سنت ناکہ کسی انسان کے موقف) کی خلاف ورزی میں آتے ہیں۔ اور اس میں بھی اخفاء سے کام لینا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنی ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی (ون ٹو ون ملاقات) میں سمجھائے، نا کہ لوگوں کے مجمے میں کھڑا ہو کر تشہیر کرے، کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا سلامتی والا راستہ یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے، انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و بصیرت سے نوازا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تشہیر اور چرچے کے بغیر کون کون سے چینلز کو استعمال کرتے ہوئے نصیحت کی جاسکتی ہے۔

پنجم*۔۔۔:
امیر کو نصیحت کرتے ہوئے اس احترام کو ملحوظ رکھا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔ امیر کا احترام عام لوگوں کے احترام کی طرح نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایک عام فاسق آدمی آتا ہے آپ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے، نہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور نہ اس سے کلام کرتے ہیں۔ لیکن امیر کا معاملہ برعکس ہے، امیر کو لوگوں کے سامنے ذلیل کرنا اور اس کے عیوب کا (میڈیا) پر چرچا کرنا بہت نقصان دہ ہے اور کئی مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔(خطبہ مسجلۃ)

*۔۔۔علامہ صالح الفوزان ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال: نصیحت کرنے کاخاص طور پر حکام کونصیحت کرنے کا اصل منہج کیا ہے؟ کیا ان کا افعال منکرہ کی تشہیر کرنی چاہیے؟ یا تنہائی میں سمجھانا چاہیے؟ امید ہے آپ اس مسئلے میں اصل منہج کی طرف رہنمائی فرمائیں گے۔
جواب: کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم نہیں ہے۔ مسلمانوں کے امیر اور حکام بشر اور خطا کار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ معصومین نہیں ہیں۔لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کھلم کھلا تشہیر کے انداز میں ان کی خطاوں کا چرچا کرنے لگ جائیں اور ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں، اگرچہ وہ ظلم و زیادتی بھی کریں، اگرچہ وہ معصیت کا ارتکاب بھی کریں، یہاں تک کہ جب وہ کفر بواح یعنی کھلم کھلا کفر کریں تو تب ہم اپنا ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔ امراء اگر گناہ گار ہوں، ظلم و زیادتی کرنے والے ہوں تو بھی صبر ہی بہتر ہے اور یہی کلمے کو جمع رکھ سکتا ہے اور مسلمانوں کی وحدت کا پاسبان ہے۔ جبکہ ان کی کھلم کھلا مخالفت اور انکار میں بڑے بڑے مفاسد ہیں۔ ان کے کسی منکر کا ارتکاب کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان تفرقے اور پھوٹ ڈالنے سے ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ شرک اور کفر کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو وہ علیحدہ بات ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے منکر پر خاموشی اختیار کی جائے بلکہ اس کا علاج کرنا چاہیے، لیکن وہ علاج سلامتی والے طریقے سے ہو، تنہائی اور خط و کتابت کی شکل وغیرہ میں ہو۔ اور پھر یہ خط و کتابت بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ اسے(ان خطوط اور تحریروں کو) لوگوں کو دکھاتے پھریں، بلکہ یہ بھی خفیہ ہی ہونی چاہیے۔ جبکہ ایسی خط و کتابت یا تحریر و تصویراور اس کی لوگوں میں تقسیم(پرنٹ کرکے یا میڈیا پر) یہ عمل جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ تشہیر ہے، اور یہ سرعام بات کرنے کی طرح ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ویسے کی ہوئی بات ممکن ہے لوگ بھول جائیں لیکن خط اور تحریر(یعنی پرنٹڈ مواد یا ریکارڈ شدہ ویڈیو،آڈیو) لوگوں کے پاس سالوں سال باقی رہے گی۔لہٰذا یہ حق نہیں ہے۔(الاجوبۃ المفیدۃ 27)

*۔۔۔ایک اور سوال کے جواب میں الشیخ فوزان فرماتے ہیں:
بل تعالج ولکن تعالج بالطریقہ السلیمۃ بالمناصحۃ لھم سرا والکتابۃ لہم سرا ولیست بالکتابۃ التی تکتب بالانترنیت او غیرہ ویوقع علیھا جمع کثیر وتوزع علی الناس فھذا لایجوز لانہ تشہیر۔۔۔۔۔۔۔الخ
خط وکتاب خفیہ ہو، ایسی خط و کتاب نہ ہو کہ آپ انٹر نیٹ وغیرہ(سوشل میڈیا) پر اس کی تشہیر کرتے پھریں اور لوگوں میں شائع اور تقسیم کریں یہ جائز نہیں ہے۔یہ لوگوں میں ویسے تقریر کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ویسے کی ہوئی بات لوگوں کو کسی وقت بھول بھی جائے گی لیکن میڈیا پر شائع شدہ بات لوگوں کے پاس باقی رہے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ دین خیرخواہی کا نام ہے۔تو صحابہ نے پوچھا کس کے لیے تو فرمایا: اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول کے لیے اور عام مسلمانوں اور ان کے حکام کے لیے۔(مسلم) جبکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے راضی ہوتا ہے ۔ یہ کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور یہ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا جائے، اور یہ کی اولوالامر کو نصیحت کی جائے۔
اولوالامر کو ایسے طریقے سے نصیحت کرنا کہ ان کی خطاوں کی تشہیر ہو، اگرچہ اس نیت اچھی ہو لیکن یہ اصل منہج نہیں ہے، کیونکہ نہی عن المنکر کرنے کا طریقہ بھی ہمیں شریعت نے بتایا ہے، اور شریعت کے راستے سے ہٹ کر نہی عن المنکر کرنا خود ایک منکر ہے۔
خلاصہ کلام:
کسی بھی شخص کو چاہے وہ اولوالامر میں سے ہو یا عام شخص، نصیحت یا تبلیغ کرتے ہوئے، ان آداب اور تعلیمات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے جو ہمیں اللہ کی کتاب قران حکیم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، صحابہ کرام اور اسلاف کے منہج میں ہم تک پہنچیں ہیں۔

*۔۔۔عقلا بھی تقاضا یہی ہے کہ اگر آپ اپنے موقف میں مخلص ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اگلا شخص آپ کی بات کو قبول کرے تو اپنی بات منوانے کے لیے خلوص کے ساتھ ساتھ حکمت و بصیرت کا سہارا بھی لینا چاہیے، کیونکہ رازداری کے سمجھانے اور ساری پبلک میں شور شرابا کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس طرح کرنے سے ضد تو پیدا ہوتی ہے محبت نہیں۔

*۔۔۔تبلیغ کی کوئی لمٹ نہیں ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے 950 سال تبلیغ کی اور صرف ستر بہتر لوگوں نے قبول کیا لیکن وہ خود کامیاب ہوگئے۔ اصل کامیابی اپنی اخروی نجات ہے، فوکس اس پر ہونا چاہیے کہ میری کامیابی کیا ہے اور کیا نہیں ہے، نا کہ اس پر کہ میرا موقف میری سانسیں ختم ہونے سے پہلے غلبہ پاجائے۔ جب نظریہ یہ بن جاتا ہے کہ میرا موقف یا میرا نظریہ غالب کیوں نہیں آرہا تو مایوسی چھا جاتی ہے، اور یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان سب سے زیادہ کمزور ہوجاتا ہے اورکمزوری کے اس لمحے میں نہ صرف شیاطین بلکہ انسان نما شیاطین بھی بڑی آسانی سے اسے شکار کرلیتے ہیں۔ اس لیے مایوسی کا شکار ہو کر کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا کمزور نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بھی شخص آپ کی نکیل پکڑ کر کبھی ادھر کرے اور کبھی اُدھر کرے۔

*۔۔۔ایک فرد کا کام بس اتنا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرتا چلا جائے اور کرتا چلا جائے۔ نتیجے کا فورا ظاہر کرنا نہ کسی کے بس میں ہے اور نہ کسی کی ذمہ داری ہے۔ البتہ کام کرنے میں اخلاقی لحاظ سے کبھی بھی اس منہج کو ترک نہ کرے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔

*۔۔۔مروجہ سیاسی جماعتوں کے جھگڑوں کی طرح الزام تراشی، بہتان بازی، میڈیا ٹاک جسے ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ سنے اور دیکھے، اور پھر اس میں بھی انہیں مروجہ سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار کی طرح اپنے تئیں ثبوت لالاکر دکھانا اور پیش کرنا کسی بھی صورت دینی جماعتوں، اور ان کے کارکنان اور رفقاء کے شایان شان نہیں، کیونکہ یہ طریقہ مخالف فریق کا تو ہوسکتا ہے، دین کے مبلغ اور داعی کا نہیں۔

*۔۔۔ داعی کا مزاج خیرخواہانہ ہوتا ہے نہ کہ دوسرے کو نیچا دکھانے اور رسوا کرنے والا۔جبکہ مروجہ سیاسی جماعتوں میں فریق مخالف کو نیچا دکھا کر ووٹ توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور چند ایک ووٹ توڑ کراپنے ساتھ ملانے سے آگے ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔چنانچہ سیاسی جماعتوں میں دوسروں کے ووٹ توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں ہر جائز و ناجائز حربہ آزمایا جاتاہے۔ جبکہ داعی کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا ، داعی کا ایک راستہ بند ہو تو وہ جواز کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی دوسراراستہ تلاش کرلیتا ہے۔ ایک مورچہ چھوٹے تو دوسرے میں بیٹھ جاتا ہے۔

*۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version