انگریز کے ہاتھوں ہندوستان کی تعلیمی بربادی
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
انگریزوں سے پہلے ہندوستانی کی تعلیمی حالت
ناظرین اس سے پہلے چار ویڈیوز میں ہم نے ہندوستانی کی معاشی،زرعی، صنعتی اور اخلاقی حالت انگریزوں سے پہلے اور انگریزوں کے بعد کو بڑی تفصیل سے آپ کو بتایا ہے، اگر وہ ویڈیوز نہیں دیکھیں تو نیچے ڈسکرپشن میں موجود لنک پر کلک کرکے دیکھ لیں۔
آج کی ویڈیو میں آپ کو یہ بتائیں گے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان کی تعلیمی حالت کیا تھی اور پھر انگریزوں کے آنے کے بعد ہندوستان کی تعلیمی حالت کیا ہوگئی تھی۔
ناظرین: علم کے جتنے فضائل اور اہمیت اسلام نے بیان کی ہے شاید ہی کسی اور دین و مذہب یا ملت میں اتنی اہمیت تعلیم کی بیان ہوئی ہو، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں میں نہ صرف بڑے بڑے علماءبلکہ جدید سائنس کی بنیاد رکھنے والے عظیم سائنسدان بھی مسلمان ہی تھے۔ اسلامی تہذیب کی یہ خوبی مسلمانوں کے عظیم ہندوستان میں بھی موجود تھی۔ چنانچہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان نہ صرف معاشی لحاظ سے دنیا کا ترقیافتہ ملک تھا بلکہ تعلیمی لحاظ سے بھی ہندوستان کی کوئی مثال نہیں تھی۔ قدیم ہندوستان میں ہزاروں مدارس، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں، جن میں دینی اور عصری علوم ایک ہی جگہ پڑھائے جاتے تھے اور اس سے بھی اہم خوبی یہ تھی کہ تمام تعلیم مکمل طور پر مفت تھی۔آج جدید دور میں پاکستان کے بجٹ میں تعلیم کے لیے محض دو چار فیصد رقم ہی مختص کی جاتی ہے، جبکہ آج سے سینکڑوں سال پہلے ترقیافتہ ہندوستان میں بیس پچیس فیصد رقم یعنی ملک کی کل آمدن کا ایک چوتھائی صرف تعلیم پر خرچ کیا جاتا تھا۔
روشن مستقبل کے مصنف لکھتے ہیں:
اس زمانہ میں کیفیت یہ تھی کہ والیان ملک اور امراءتعلیم کی پوری سرپرستی کرتے تھے اس کے لیے جاگیریں دیتے اور جائدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی صرف اضلاع میں جو دہلی سے قریب تر تھے پانچ ہزار علماءمختلف مدارس میں درس دیتے تھے اور حافظ رحمت خان کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے۔
کپتان الگزینڈر اپنے سفرنامے میں شہنشاہ اورنگزیب کے زمانہ کی حالت بتاتے ہوئے لکھتا ہے:
صرف ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے چار سو کالج تھے۔
ناظرین ٹھٹہ شہر پاکستان کے صوبہ سندھ میں آج بھی موجود ہے، لیکن آج یہاں پانچ سو کالج نظر نہیں آتے، یہ وہی شہر ہے جس کے ذریعے ہندوستان میں اسلام پھیلا تھا۔ اور ایشیاءکی پہلی مسجد بھی اسی شہر میں ہے۔ بجائے اس کے کہ پہلے پانچ سو کالج تھے تو اب ہزار ہونے چاہیے لیکن شاید آپ کو آج اس شہر میں ایک سو کالج بھی نہ نظر آئیں۔ اور جو کالج آج ہیں بھی ان میں صرف وہی لوگ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں جن کے پاس تعلیم کے لیے پیسہ ہے۔
یاد رہے ٹھٹہ ہندوستان کے دارالحکومت سے ایک ہزار میل دور تھا۔ اتنے دور کے شہر میں الگزینڈر کے مطابق پانچ سو کالج تھے جبکہ پرائمری سکول وغیرہ اس کے علاوہ تھے۔اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک دور دراز علاقے میں اتنے تعلیمی ادارے تھے تو پھر اس وقت کے بڑے اور ترقیافتہ شہروں میں کتنے تعلیمی ادارے ہوں گے۔
مقریزی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
محمد تغلق کے زمانہ میں صرف دہلی شہر میں ایک ہزار مدرسے تھے۔
مسٹر کیربارڈی لکھتا ہے:
انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدرسے تھے اس طرح چار سو آدمیوں کی آباد کے لیے ایک مدرسہ کا اوسط ہوتا تھا۔
انڈین ریفارم سوسائٹی نے 1853 میں ایک رسالے میں لکھا:
ہندووں کے زمانہ میں ہر موضع میں ایک مدرسہ ہوتا تھا، ہم نے چوں کہ دیہاتی کمیٹیوں کو توڑ دیا اس سے ان کے باشندے مدارس سے بھی محروم ہوگئے، اور ہم نے ان کی جگہ کوئی چیز قائم نہیں کی۔
کئی انگریز ماہر تعلیم مصنفین نے اپنی کتابوں میں یہ بات لکھی ہے کہ قدیم ہندوستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد آج کے جدید دور سے زیادہ تھی۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ ہندوستان میں انگریز آگیا اور انگریز نے یہاں کے تعلیمی نظام کو درھم برھم کرکے رکھ دیا، یہ سب کیسے ہوا یہ بھی ملاحظہ کریں۔
انگریز کے آنے کے بعد ہندوستان کی تعلیمی بربادی
جب انگریز نے ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑے تو اسے سب سے زیادہ خطرہ اسی بات سے تھا کہ اگر لوگ اسی طرح تعلیم یافتہ رہے تو ہماری حکومت یہاں پکی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہم یہاں لوٹ مار کرسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ہندوستان سے تعلیمی اداروں کو ختم کرنا شروع کیا۔چنانچہ 1838 میں تمام تعلیمی اداروں کی وقف شدہ زمینوں کو سرکاری قبضہ میں لے لیا۔
سرولیم برٹش انڈیا میں لکھتا ہے:
میرے خیال میں انسانی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ چند اغیار (انگریز غیرملکی) چھ کروڑ کی آبادی کے ملک پر حکمرانی کرسکیں، اس لیے جوں ہی وہ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو تعلیم کی تاثیر سے ان کے قومی اور مذہبی تفرقے دور ہو جائیں گے جس کے ذریعہ سے اب تک ہم نے اس ملک کو اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے، یعنی مسلمانوں کو ہندووں کے خلاف کرنا اور علی ہذا القیاس تعلیم کا اثر یہ ضرور ہو گا کہ ان کے دل بڑھ جائیں گے اور انہیں اپنی طاقت سے آگاہی ہو جائے گی۔
ناظرین یہ وہ مقاصد تھے جن کے لیے انگریزوں نے ہندوستان میں تعلیمی اداروں کو زبردستی بند کروایا، پرانے تعلیم یافتہ لوگ چالیس پچاس سال میں ختم ہو گئے،اور نئی نسل تعلیم سے بے بہرہ تھی ہر طرف جہالت کے اندھیرے چھا گئے اور لوگ مکمل طور پر غلامی کے شکنجے میں کس لیے گئے۔
1823 میں آنریبل ایف وارڈن نے لکھا:
ہم نے دسیوں ذہانت کے چشمے خشک کردیے، ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس نے نہ صرف ان کی علمی ترقی کے ذرائع کو ہٹا لیا بلکہ حالت یہ ہے کہ قوم کے اصلی علوم بھی گم ہو جانے سے لوگوں کی ذہانت کی پیداوار بھی ختم ہو گئی۔
ناظرین ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنے کی ہوس اور اسے لوٹتے رہنے کی خواہش سے انگریزوں نے ہمیشہ یہی پالیسی جاری رکھی کہ ہندوستانیوں کو تعلیم سے محروم کرکے ان کی ذہانت کو تباہ کیا جائے۔اس حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ میں کیا کیا کھچڑی پکتی رہی اس کی روئیداد سن کر آپ دھنگ رہ جائیں گے۔
سن 1792 میں پارلیمنٹ میں ایک تجویز پیش کی گئی کہ ہندوستان میں پروٹسٹنٹ مذہب کے عقائد اور تعلیمات کو عام کیا جائے۔ اس تجویز کے جواب میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالکان نے کہا کہ:
ایک ہی مذہب کے قائم ہو جانے سے انسانوں کے مقاصد متحد ہو جاتے ہیں، اگر ایسا ہوگیا تو ہندوستان میں انگریزوں کی برتری کا خاتمہ ہو جائے گا( یعنی اگر ہندوستان میں لوگوں کا عقیدہ عیسائیت والا بن گیا تو پھر برطانیہ اور ہندوستان میں کیا فرق رہ جائے گا لہذا) لوگوں کو اپنے مذہب میں لانے کا اصول اس اٹھارویں صدی میں خلاف مصلحت ہے، اگر ہندوستان میں چند لاکھ عیسائی بھی پیدا ہوگئے تو ہمارے مفادات پر سخت مصیبت آجائے گی۔(یعنی پھر ہم یہ لوٹ مار تو نہیں کرسکیں گے)اس لیے بجائے اس کے کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں جس نے تعلیم حاصل کرنی ہے وہ برطانیہ آکر حاصل کرے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی تعلیم مخالف پالیسیاں کوئی معمولی معاملہ نہیں تھا کہ اتنی آسانی سے لوگ خاموشی اختیار کرلیتے چنانچہ ہر طرف سے آوازیں اٹھتی رہیں یہاں تک کہ بعض معتدل مزاج انگریز بھی آوازیں لگاتے رہے کہ ہندوستانیوں کو تعلیم سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں 7مارچ1835 کو ایک اجلاس میں کمیٹی قائم کی گئی جس کا صدر لارڈ میکالے کو بنایا گیا، لارڈ میکالے نے ایسی پالیسی اختیار کی کہ ہندوستان میں تعلیمی ادارے تو بنائیں جائیں لیکن وہ تعلیمی سسٹم، نصاب اور ادارے ایسے ہونے چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق تعلیمی ادارے تو بنیں لیکن ہندوستانیوں کو تعلیم نہ ملے بلکہ وہ اس تعلیم کو حاصل کرکے مکمل ہماری غلامی میں آجائیں۔چنانچہ اس مقصد کے لیے جو جو اقدامات کیے گئے وہ مندرجہ ذیل تھے۔
1۔تمام علوم و فنون کی تعلیم مکمل انگریزی میں دی جائے۔ظاہر ہے سات ہزار میل دور کی ایک ایسی زبان جو یہاں کے لوگوں کے لیے بالکل اجنبی ہوگی تو ان کی ساری صلاحیت الفاظ کے معنی ومطلب کو سمجھنے میں ہی لگے گی اور وہ علوم و فنون کیا خاک سیکھیں گے۔
2۔ پھر جو فنون داخل درس کیے گئے وہ اتنے ہر گز نہیں تھے جس سے کوئی بڑا ماہر پیدا ہوسکتا تھا۔
3۔فضول اور بہت زیادہ کتابیں شامل کرکے بچوں کے دماغ کو اتنا الجھا دیا گیا کہ وہ بیکار ہو گئے۔
4۔ نصاب میں سائنس اور طبیعات کی ایسی کتابیں شامل کی گئیں جو محض خیالی اور دین و مذہب سے بیزار کرنے والی تھیں۔
5۔ نصاب ایسا بنایا گیا کہ پڑھنے والا زیادہ سے زیادہ انگریزوں کے دفاتر میں کلرک اور ترجمان لگ سکے۔
چنانچہ لارڈ میکالے نے اپنے اغراض ومقاصد کو ان الفاظ میں بیان کیا:
ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے۔ جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔(یعنی ہم اسکولوں کے ذریعے ہندوستانیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنا چاہتے ہیں جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہی ہوں لیکن دل ودماغ کے اعتبار سے انگریز ہوں)۔
چنانچہ لارڈمیکالے کے لائے ہوئے نظام تعلیم کے تحت قائم ہونے والے سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے نتائج چند ہی سالوں بعد ظاہر ہونا شروع ہو گئے اور جو لڑکے ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے وہ اپنے اسلاف، اور مذہب سے بیزاراور متنفر ہوتے تھے۔
چنانچہ ڈبلیو ہنٹر کہتا ہے:
ہمارے انگلو انڈین اسکولوں سے کوئی نوجوان خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ایسا نہیں نکلتا جو اپنے آباواجداد کے مذہب سے انکار کرنا نہ جانتا ہو، ایشیا کے پھلنے پھولنے والے مذاہب جب مغربی سائنس بستہ حقائق کے مقابلہ میں آتے ہیں تو سوکھ کر لکڑی ہو جاتے ہیں۔
انگریزوں کے ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے باوجود سو سال بعد جب مردم شماری کی گئی تو ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد صرف تین فیصد تھی، کہاں وہ ہندوستان جو انگریزوں کے آنے سے پہلے پچاس فیصد سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اب انگریزوں کے آنے اور انگریزی نظام تعلیم نافذ کرنے کے بعد وہاں صرف تین فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے۔پھر اگلے پچاس سال بعد یعنی 1921 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں صرف ساتفیصد لوگ پڑھے لکھے تھے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں روس نے 1918 سے 1941 تک صرف پچیس سالوں میں اپنی آبادی کے اسی فیصد لوگوں کو تعلیم یافتہ بنایا۔ اسی طرح جاپان نے صرف سو سالوں میں نوے فیصد لوگوں کو تعلیم یافتہ بنایا لیکن انگریز نے دو سوسالوں میں صرف دس فیصد لوگوں کو تعلیم یافتہ بنایا۔
سرڈی ہملٹن نے کہا تھا:
اگر کبھی انگریزوں کو ہندوستان اس طرح چھوڑنا پڑا جس طرح رومن نے انگلستان(برطانیہ) چھوڑا تھا تو وہ (ہندوستان) ایک ملک چھوڑ جائیں گے جس میں نہ تعلیم ہوگی، نہ حفظان صحت کا سامان ہو گا اور نہ ہی دولت ہوگی۔