انگریز نے ہمیں کیسے لوٹا
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
انگریزوں سے پہلے ہندوستان کی زرعی حالت
نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی
ناظریں: ہندوستان زیادہ پیداوار والا انتہائی سستا ملک تھا۔لیکن انگریزوں نے اسے قحط سے دوچار کرکے نہایت گراں ملک بنا دیا۔ہندوستان غلوں اور اناجوں کا ملک تھا، یہاں خوشحالی اور فارغ البالی تھی، چیزیں اتنی سستی ہوتی تھیں کہ ان کے بارے سن کا جھوٹ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
ناظرین خود انگریزوں نے اپنی کتابوں میں ہندوستان میں اشیائے خوردونوش کی جو قیمتیں لکھی ہیں جنہیں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے حیران کن حد تک کم ہیں، مثلا بھینس 2روپے، بیل 2روپے، بکری موٹی ایک روپے۔ مرغ آدھا آنہ۔ گندم ایک من 9 آنے کی۔ چاول ایک من 9 آنے میں۔ چنے ایک من 3 آنے میں،نمک دو روپے میں 28 من ملتا تھا وغیرہ وغیرہ۔
ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے:
بنگال میں چاول ایک روپے میں سولہ من ملتے تھے۔اور روئی کا کپڑا ایک روپے میں تیس گز ملتا تھا۔گھی ایک سیر تین آنے میں۔آگرہ سے دہلی تک گھوڑے پر بیٹھ کر کرایہ صرف ایک روپیہ ہوتا تھا۔
ناظرین میں نے نہایت اختصار کے ساتھ چند چیزوں کی قیمتیں آپ کو بتائی ہیں جس کی تفصیل آپ کو مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کتاب برطانوی سامراج نے ہمیں کیسا لوٹا میں مل جائی گی۔
اب ذرا یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ انگریزوں کے آنے کے بعد ہندوستان کی زرعی حالت کیسی تھی
انگریزوں نے زراعت کے متعلق بھی نہایت اندوہناک اور دلخراش پالیسیاں بنائیں۔ انگریزوں سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ کاشتکار سے فصل تیار ہونے پر سرکاری نمائندہ موقع پر غلہ کا وزن کرکے چوتھائی حصہ یا اس کی قیمت وصول کرلیا کرتا تھا۔ جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا جتنی فصل اتنا ہی ٹیکس، جیسی فصل ایسا ہی ٹیکس، اگر فصل نہیں ہوئی تو ٹیکس بھی نہیں، یعنی کاشتکار اور حکومت فائدے اور نقصان میں برابر ہوتے تھے۔
لیکن جب انگریز آیا تو اس نے بجائے فصل کے زمین پر فکس ٹیکس لگادیا، چاہے کوئی فصل لگائے یا نہ لگائے۔ چاہے فصل کم ہو یا زیادہ ہو۔ چاہے فصل اچھی ہو یا خراب ہو، چاہے آندھی طوفان ، سیلاب سے فصل تباہ ہو جائے ہر حال میں کاشتکار کو فکس ٹیکس انگریزوں کو دینا ہوتا تھا۔اگر کاشتکار کے پاس ٹیکس نہ ہوتا تو اس کا گھر، اس کی زمین، اس کی عورتوں کے زیوارت ٹیکس کی مد میں زبردستی چھین لیے جاتے تھے۔چنانچہ انگریزوں کی اس طرح کی ظالمانہ پالیسیوں کی بدولت ہندوسان کی وہ حالت رفتہ رفتہ ختم ہو گئی جس کا ذکر میں پیچھے کر آیا ہوں۔غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک عام ہونے لگی۔لوگ اگر کاشتکاری نہیں کرتے تو بھوک سے مرتے ہیں، اگر کرتے ہیں تو دووقت کی روٹی کے علاوہ سب کچھ انگریز ٹیکس کی مد میں چھین کر لے جاتا تھا۔یہ ساری وہ تفصیلات ہیں جو خود انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں نے اپنی تحریروں میں لکھی ہیں۔
ناظرین سالانہ فکس ٹیکس لگانے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ کاشتکار ٹیکس ادا کرنے کی مجبوری کے سبب ہر حال میں ہر سال فصل لگاتے تھے، جس سے زمین بھی کمزور ہو گئی اور پیداواری صلاحیت آدھے سے بھی کم ہو کر رہ گئی۔وہ ہندوستان جو بقول انگریز مصنفین کے جس کی پیداواری صلاحیت ساری دنیا سے زیادہ تھی، انگریزوں کے ملعون اقتدار اور منحوس زمانہ میں ساری دنیا سے کم ہوگئی۔
ناظرین مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوا اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ ہندوستان جہاں ایک روپے میں تین من چاول ملتے تھے انگریزوں کے آنے اور قبضہ کرنے کے بعد ایک روپے میں صرف بارہ سیر چاول کی قیمت ہوگئی۔اسی تناسب سے باقی چیزوں کی قیمتیں بھی زیادہ ہو گئیں تھیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مہنگائی کے اسباب کیا تھے۔ ناظرین کچھ اسباب کا ذکر میں نے کردیا ہے جبکہ ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان کا سونا اور چاندی لوٹ کر برطانیہ کے بینکوں میں رکھ دیا، پھر اس سرمائے سے یورپ میں صنعتی انقلاب آیا، مشینیں اور دیگر ایجادات ہوئیں، کارخانے لگے اور پھر انگریزوں نے ہندوستان سے خام مال یورپ منتقل کیا اور وہاں کے کارخانوں سے چیزیں تیار کرکے واپس ہندوستان میں بیچنا شروع کردیں اس طرح ہندوستان یہاں کے ہی مال سے یورپ کی منڈی بن گیا۔
اخبارملت دہلی 16جولائی 1931 کی اشاعت میں لکھتا ہے:
رائل ایگریکلچر سوسائٹی کی 1883 کی رپورٹ میں درج ہے کہ 1883 میں 11کروڑ86لاکھ83ہزار7سو10من گندم ہندوستان سے جہازوں میں بھر بھر کر باہر بھیجی گئی۔ یعنی ہر ایک منٹ میں 229 من گندم سپلائی ہوتی تھی۔اسی طرح چاول ہر منٹ میں 118 من، مسور کی دال 55من فی منٹ۔ مونگ کی دال 65من فی منٹ منتقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اتنی تیزی کے ساتھ سونا چاندی اور غلے کی منتقلی سے ہندوستان سونے کی چڑیا سے ایک غریب ملک بن گیا۔
ناظرین آئیے ہم آپ کو ایک اور انداز سے ہندوستان اور برطانیہ کا زرعی موازنہ دکھاتے ہیں:
گیارہویں صدی سے سترویں صدی تک سات سو سالوں میں قحط کتنے آئے۔
گیارہویں صدی میں ہندوستان میں 2قحط، جبکہ برطانیہ میں 20قحط آئے۔
بارہویں صدی میں ہندوستان میں 1قحط، جبکہ برطانیہ میں 15 قحط آئے۔
تیرہویں صدی: ہندوستان میں 3قحط جبکہ برطانیہ میں 19 قحط آئے۔
چودہویں صدی: ہندوستان میں 3قحط جبکہ برطانیہ میں 16 قحط آئے۔
پندرہویں صدی: ہندوستان میں 2قحط جبکہ برطانیہ میں 9 قحط آئے۔
سولویں صدی: ہندوستان میں 3قحط جبکہ برطانیہ میں 15 قحط آئے۔
سترویں صدی: ہندوستان میں 3قحط جبکہ برطانیہ میں 6 قحط آئے۔
جبکہ انگریزوں کے آنے کے بعد معاملہ الٹا ہوگیا اور صرف انیسویں صدی میں برطانیہ میں صرف ایک قحط آیا جبکہ ہندوستان میں 31قحط آئے۔یعنی پچھلے سات سو سالوں میں ہندوستان میں صرف سترہ قحط آئے اور انگریزوں کے آنے کے بعد صرف ایک سو سال میں دوگنا یعنی 31 قحط آئے۔
پوری دنیا میں 1793 سے 1900 تک ایک سو سات سالوں میں جنگوں میں پچاس لاکھ لوگ مرے۔ جبکہ ہندوستان میں صرف نو سالوں میں قحط سے دوکروڑ انسان مرے۔
ناظرین کرام ان اعدادوشمار سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انگریزوں نے کس طرح ہندوستان کی زرعی حالت کو نہ صرف بگاڑا بلکہ یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار خوب گرم کیا، غریب برطانیہ امیر ہوگیا اور امیر ہندوستان غریب ہوگیا۔
ناظرین ہم اپنی اگلی ویڈیو میں ہندوستانی صنعتی و تجارتی حالت کا جائزہ لیں گے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان کی صنعتی حالت کیا تھی اور بعد کو کیا ہوا۔