انگریز اور فرقہ واریت
06۔ مذہبی رواداری اور فرقہ واریت انگریزوں سے پہلے اور بعد
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان میں مذہبی رواداری
ناظرین انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان مذہبی رواداری کے لحاظ سے دنیا بھر کے لیے ایک مثالی ملک تھا، یہاں ایک دو تین نہیں بلکہ بیسیوں مذاہب کے ماننے والے رہتے تھے۔ مسلمانوں کے سینکڑوں سالہ دور حکومت میں تمام مذاہب کے ساتھ برابری والا سلوک کیا جاتا تھا، عام روٹین کے لڑائی جھگڑوں کے علاوہ کبھی مذہبی منافرت اور تعصب کی بناءپر کبھی لڑائیاں یا فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے۔ غیرمسلموں کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی غیرمذہب حکمران کے زیرسایہ زندگی گزار رہے ہیں۔
چنانچہ لارڈ ولیم جو پہلے مدراس کا گورنر تھا اور بعد میں ہندوستان کا وائسرائے بھی رہا ہے اس نے 1882 میں اپنی کمپنی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا:
بہت سی باتوں میں اسلامی حکومتیں انگریزی راج سے کہیں بہتر تھیں۔ مسلمان اس ملک میں آباد ہو گئے جسے انہوں نے فتح کیا تھا، وہ ہندوستانی باشندوں سے گھل مل گئے۔ ان میں شادی بیاہ کرنے لگے۔ مسلمانوں نے ہندوستانی قوموں کو ہر قسم کے حقوق دیے فاتح اور مفتوح کے مذاق دلچسپی اور ہمدردی میں یکسانیت تھی۔ کوئی فرق نہ تھا۔ برخلاف اس کے انگریزی پالیسی اس کے برعکس ہے۔ اب سرد مہری، خود غرضی، بے پرواہی ہے۔ جس میں ایک طرف حکومت کا آہنی پنجہ حکمران ہے اور دوسری طرف ہر چیز پا اپنا قبضہ ہے اور ہندوستانیوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔
ناظرین انگریز وائسرائے کی اس واضح شہادت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں مذہبی رواداری کی کیسی فضاء قائم کر رکھی تھی۔اورنگزیب عالمگیر کے زمانہ میں بنگال کے ہندووں کو نہ صرف جاگیری دی جاتیں تھیں، بلکہ بڑے بڑے حکومتی عہدے بھی دیے جاتے تھے، جن میں گورنر تک کے عہدے شامل تھے، بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ اس دور میں افغانستان جو خالصتا مسلمانوں کا علاقہ تھا وہاں بھی نائب سلطنت ایک ہندو راجپوت کو بنایا گیا۔
پنڈت سندرلال کہتے ہیں:
اکبر جہانگیر، شاہجہاں اور ان کے بعد اورنگ زیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندو اور مسلم یکساں حیثیت رکھتے تھے، دونوں مذاہب کی مساویانہ عزت و توقیر کی جاتی تھی اور مذہب کے لیے کسی کے ساتھ کسی قسم کی جانب داری نہ کی جاتی تھی۔آج تک ہندوستان میں متعدد ہندو مندروں کے ذمہ داران کے پاس اورنگ زیب کے دستخطی فرمان موجود ہیں جن میں خیرات اور جاگیروں کے عطا کیے جانے کے تذکرے ہیں۔اسی طرح اورنگ زیب نے مختلف شعبوں میں ہندو ماہرین کو نہ صرف اعلی اعزازات سے نوازا بلکہ ان کو اہم عہدے اور رقبے بھی عطا کیے۔
چنانچہ مسٹر ظہیر الدین فاروقی لکھتے ہیں:
ہندووں کو اپنی سرکار میں ملازم رکھنے کے سلسلہ میں اس کا خیال تھا کہ مذہب کو دنیاوی امور کے بیچ میں لانا بے معنی ہے اور اس قسم کے معاملات میں مذہبی عصبیت کو راہ نہ دینا چاہیے۔
شہنشاہ محمد ظہیر الدین بابر مرحوم اپنے بیٹے محمد ہمایوں کو خفیہ وصیت میں لکھتا ہے:
اے بیٹے! سلطنت ہندوستان مختلف مذاہب سے بھری پڑی ہے، الحمدللہ کہ اللہ نے تمہیں یہ بادشاہت عطا فرمائیں۔ تمہیں لازم ہے کہ تمام تعصبات مذہبیہ کو لوح دل سے دھوڈالو۔ اور عدل و انصاف کرنے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ رکھو، جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔جو قوم یا ملت حکومت کی مطیع اور فرماں بردار رہے اس کے مندر اور مزار برباد نہ کیے جائیں عدل وانصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے۔شیعہ سنی کے جھگڑوں سے چشم پوشی کرو ورنہ اسلام کمزور ہو جائے گا۔ اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلا کر رکھو اور ان میں اتحاد عمل پیدا کرو۔
ناظرین اسی طرح اورنگ زیب نے اپنے ایک فرمان میں لکھا:
ہماری پاک شریعت اور سچے مذہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیمی مندروں کو گرایا جائے۔لہذا یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی شخص ہندووں اور برہموں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور ان پر کسی قسم کا ظلم کرے۔
کیپٹن الگزینڈر ہملٹن ٹھٹہ کے بارے لکھتا ہے:
ریاست کا مسلمہ مذہب اسلام ہے لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں تو ایک مسلمان ہے۔ ہندووں کے ساتھ مذہبی رواداری پورے طور سے برتی جاتی ہے وہ اپنے برت رکھتے ہیں اور تہواروں کو اسی طرح مناتے ہیں جیسے کہ اگلے زمانہ میں کرتے تھے۔ جبکہ بادشاہت خود ہندووں کی تھی۔
الگزینڈر سورت شہر کے بارے لکھتا ہے:
اس شہر میں اندازا سو مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن ان میں کبھی کوئی سخت جھگڑے نہیں ہوتے ہر ایک کو پورا ختیار ہے کہ جس طرح چاہے اپنے طریقے سے اپنے معبود کی پرستش کرے۔عیسائیوں کو پوری اجازت ہے کہ وہ اپنے گرجے بنائیں وغیرہ۔
میجر باسو کہتا ہے:
رعایا کی خوشحالی اور سرمایہ داری کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا دور حکومت سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے دولت مندی اور آرام و چین کا جو نقشہ شاہجہاں کے وقت میں دیکھنے میں آتا تھا بلاشبہ بے مثل وبے نظیر تھا۔
ناظرین ان تمام گواہیوں کی روشنی میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہندوستان انگریزوں کے آنے سے پہلے مذہبی تعصب اور فرقہ واریت سے پاک ملک تھا، یہاں ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جاتا تھا۔ اور حسب قابلیت ہر ایک کو حصہ بھی ملتا تھا۔جس کا نتیجہ خوشحال ہندوستان کی صورت میں دنیا کے سامنے تھا، مگر افسوس کہ پھر انگریز آگیا اور اس نے ہندوستان کی ان تمام خوبیوں کو خرابیوں میں بدل دیا مذہبی رواداری ختم اور فرقہ واریت شروع کرادی گئی، یہ سب کیسے ہوا یہ بھی ملاحظہ کریں۔
انگریز کے آنے کے بعدہندوستان میں مذہبی رواداری اور فرقہ واریت کی حالت
ناظرین ہندوستان کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ کر اس کی دولت کو چوس چوس کر انگلینڈ منتقل کرنا یہی انگریزوں کی اصل پالیسی تھی، چاہے اس کے لیے شکار مرے یا جیے برطانیہ کو اس کی کوئی فکر نہ تھی، چنانچہ انگریز نے ہندوستان کو سخت فلاکت اور بربادی کے گڑھے میں ڈال دیا اور ایسے گندے اخلاق واعمال میں مبتلا کردیا کہ صدیوں کے بعد آج تک ہندوستان کے سنبھلنے کی نوبت نہیں آئی۔
چنانچہ سرجان میلکم کہتا ہے:
اس قدر وسیع ملک میں ہماری غیر معمولی قسم کی حکومت کی حفاظت اس امر پر منحصر ہے کہ ہماری عملداری میں جو بڑی جماعتیں ہیں ان کی عام تقسیم ہو اور پھر ہر ایک جماعت کے ٹکڑے مختلف ذاتوں اور فرقوں اور قوموں میں ہوں جب تک یہ لوگ اس طریقہ سے (فرقہ واریت میں) جدا جدا رہیں گے اس وقت تک کوئی بغاوت اٹھ کر ہماری حکومت کو ختم نہ کرسکے گی۔
یعنی ہر جماعت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، جب ایک ٹکڑا تھوڑا سا بڑا ہو تو اسے مزید ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ یہ تقسیم ہر لحاظ سے ہو یعنی سیاسی، مذہبی، قومی اور لسانی ہر اعتبار سے لوگوں کو تقسیم در تقسیم در تقسیم کرکے رکھا جائے۔چنانچہ اس مقصد کے لیے ایسی ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں مسلمان بادشاہوں کے فرضی اور غیر واقعی مظالم دوسری قوموں پر دکھاکر انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا گیا۔
اس زمانہ میں جتنی بھی کتابیں لکھی ہوئیں تھی وہ اکثر ہندووں کی لکھی ہوئیں تھیں جن میں مسلمانوں کی عظمت ایثار وقربانی کا ذکر تھا، چنانچہ انگریز یہ برداشت نہ کرسکااور من گھڑت کتابیں لکھنے کا فیصلہ ہوا۔ سب سے پہلے سرہنری ایلیٹ نے 1849 میں ایک کتاب لکھی اور مسلمانوں کے سابقہ دور حکومت کے خلاف زہر اگلااور دوسری اقوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ پھر اس کتاب کے مختلف مقامی زبانوں میں ترجمے کرکے پھیلائے گئے۔مسٹر ایلیٹ کو اس بات پر سخت غصہ تھا کہ ہندومصنفین مسلمانوں کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں اور وہ اصطلاحات اپنی تحریروں میں کیوں استعمال کرتے ہیں جو اسلامی اصطلاحات ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندووں کو اگر مسلمانوں کے زمانہ میں تکلیف پہنچی وہتی تو وہ ضرور اپنی تحریروں میں اس کا اظہار کرتے۔
انگریزوں نے اس طرح کی من گھڑت تاریخی کتابیں لکھ کر اور ان کے ترجمے کرکے مختلف مذاہب کے لوگوں کو لڑانے کی بھرپور کوشش کی خاص طور پر مسلمانوں اور ہندووں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے کی کوشش کی، یہ کوشش مسلسل دوسو سالہ تک جاری رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئی نسلوں میں یہ من گھڑت باتیں حقیقی تاریخ کی صورت قبول کرلی گئیں۔
مسٹرایلیٹ کے بعد مسٹر کیمسن نے بھی ایسی ہی ایک کتاب لکھی، اور اسی قسم کی کتابیں سکولوں کے نصاب میں بھی شامل کی گئیں۔جس سے ملک کا امن تباہ ہوگیا، ہر طرف خلفشار پھیل گیا، فرقہ واریت عام ہو گئی اور لسانیت، قومیت، علاقایت کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں وجود میں آگئیں۔ پھر ان جماعتوں کے ناتجربہ کار، جوشیلے مقرروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
چنانچہ اسی بات کی شکایت کرتے ہوئے ڈبلیو ایم ٹارانس اپنی کتاب ایشیا میں شہنشاہیت میں لکھتا ہے:
سیواجی کو متعصب اور سلطان ٹیپو کو کٹر مذہبی کہا جاتا ہے۔ لیکن جس وقت ہم نے جنوبی ہند کی ریاستوں میں دخیل ہونا شروع کیا اس وقت ان کے یہاں اس قسم کیے مذہبی تنفر کا کہیں نام تک نہ تھا۔اس دور میں جب آئرلینڈ میں کوئی رومن کیتھولک نہ اپنے بزرگوں کی جاگیر کا حق دار سمجھا جاتا تھا نہ فوج کا افسر ہو سکتا تھا۔ اور جب سویڈن میں سوائے لوتھر کے معتقدین کے اور کسی عقیدہ کا کوئی ملازم نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹھیک اس وقت ہندوستان کے اندر ہر شہر اور شاہی دربار میں ہندو مسلمان عزت اور سرمایہ کمانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں آزاد تھے۔
ناظرین اورنگ زیب کو انگریزوں نے اپنی جھوٹی کتابوں میں متعصب مشہور کیا تھا، اور عالمگیر کو ظالم کہا تھا، لیکن یہی مسلمان حکمران تھے جن کے فوجوں کے سربراہ بھی ہندو ہی ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ سیوا جی نے جب بغاوت کی تو اس سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جے سنگ سپہ سالاری کرتا ہوا پہنچتا ہے اور اس کو قید کرکے عالمگیر کے سامنے پیش کرتا ہے۔ سیوا جی معافی طلب کرتا ہے تو عالمگیر اس کے تمام جرائم پر اسے معافی بھی دے دیتا ہے حالانکہ اس نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور ہزاروں فوجیوں کا خون بہایا تھا۔ یہی سیوا جی اس معافی کے بعد دو بار پھر بغاوت کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے لیکن مسلمان حکمران پھر بھی اسے قتل نہیں کرتے بلکہ تیسری مرتبہ صرف جیل میں قید کرلیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد یہ جیل سے زندہ فرار ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس انگریزی قانون میں تو صرف سازش کرنے والے کو کالے پانی کی سزا دے دی جاتی تھی۔ بغاوت کرنا تو بہت بڑا جرم تھا۔
ایک انگریز گورنر نے 14مئی 1859 کو ایک یاداشت میں لکھا:
نفاق ڈال کر حکومت کرنا رومیوں کا اصول تھا اور یہی اصول ہمارا بھی ہونا چاہیے۔
اسی طرح کارنے ٹیکس نے 1821 میں لکھا تھا:
لڑاو اور حکومت کرو، ہماری حکومت کا اصل اصول ہونا چاہیے۔
مسٹرایڈورڈ ٹامسن اپنی کتاب میں انقلاب 1857کی تصویر کا دوسرا رخ میں لکھتا ہے:
برٹش سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے تو ہم نے مسٹر گلیڈسٹون اور لارڈ سالبری جیسے مشہور زمانہ مدبرین کے خیالات کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ وقت کی ضرورت ان کے برخلاف حکم دیتی تھی لیکن ہندوستان کے متعلق ہم ابھی تک اسی فرسودہ پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندوستانیوں میں نااتفاقی اور باہمی اختلاف کو زندہ رکھنا قدیم سے ہمارے سیاست دانوں کا نہایت مرغوب مشغلہ بنا ہوا ہے۔
مسلمانوں اور ہندووں کے ایک دوسرے کے خلاف کرنے کے لیے جو جو طریقے اختیار کیے گئے ان میں سے ایک طریقے کے بارے ایک انگریزآنریبل امبکا چرن لکھتا ہے:
اول اول اپنی عملداری کے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندووں کو بڑھایا گیا اور اس کے بعد ہندووں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اٹھایا گیا جو باہمی رنجش اور عداوت کا ذریعہ بنا۔
ناظرین اس طرح انگریزوں نے ہندوستان میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کو رنگ ونسل، زبان و علاقہ کی تفریق میں مبتلا کرکے مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت کو پروان چڑھایا اور ہندوستان کی قوموں کو آپس میں لڑا لڑا کر یہاں کامعاشی خون چوس کر انگلینڈ میں نچوڑ دیا۔