انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کی صنعتی تباہی

انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کی صنعتی تباہی

سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

انگریزوں سے پہلے ہندوستان کی صنعتی وتجارتی حالت

سید عبدالوہاب شیرازی

ہندوستان صنعتی اور تجارتی ملک تھا، ہر جگہ کارخانے قائم تھے، یہاں کے ماہر کاریگر خام مال سے نہایت ہی نفیس اور عمدہ چیزیں تیار کرتے تھے، جو دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہوتیں تھی، جس کے نتیجے میں ہر سال کروڑوں اشرفیاں ہندوستان آتیں تھیں۔ چنانچہ نہ یہاں غربت تھی نہ افلاس، بلکہ یہاں کے لوگ نہایت خوشحال اور فارغ البال تھے۔

نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

مسٹر تھارن اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے:

یورپ کو تہذیب سکھانے والے یونان اور اٹلی جبکہ بالکل جنگلی حالت میں تھے ہندوستان اس زمانے میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا اور دولت کا مرکز تھا۔ یہاں چاروں طرف صنعت و حرفت کے کاروبار جاری تھے۔یہاں کے کاریگر نہایت ہی ماہر تھے، مشرق ومغرب کے تمام ممالک ہندوستان کاکپڑا خریدتے تھے اور کوئی ملک ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔

صاحب علم المعیشت لکھتا ہے:

اس زمانے میں جبکہ مغربی یورپ کے لوگ غیرمہذب قبائل کی شکل میں آباد تھے، ہندوستان اپنی دولت اور کاریگروں کی اعلیٰ صنعت کی وجہ سے مشہور تھا۔

مسٹرمریڈیتھ اپنی کتاب : ایشیاءویورپ میں لکھتا ہے:

عام انگریزوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہماری حکومت سے پہلے ہندوستانی زندگی کیسی پر لطف تھی اور کاروباری اور باہمت لوگوں کے واسطے ہر ایک کاروبار میں کیسی آسانیاں میسر تھیں۔مجھے پختہ یقین ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے کاروباری ہندوستانی نہایت آرام کی زندگی بسر کرتے تھے۔

ڈاکٹر فرانسس جنہیں جنوبی ہندوستان کی معیشت کی تحقیقات کے لیے سن 1800 میں مقرر کیا گیا تھا، اس نے خود تمام ملک کا دورہ کرکے ایک رپورٹ شائع کی تھی جو تقریبا چھ جلدوں میں شائع ہوئی تھی جس میں اس نے لکھا تھا:

کپڑے بنانے کی صنعت کا ہندوستان میں اتنا رواج تھا کہ یہ یہاں کا عام پیشہ تھا اور کروڑوں لوگ اس سے وابستہ تھے۔ہر قسم کی روئی اور ریشم کا کپڑا یہاں تیار ہوتا اور دنیا بھر میں سپلائی ہوتا تھا۔کپڑوں پر اس غضب کی سوزن کاری ہوتی تھی کہ پرانے کشیدے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔کمبل، دریاں، قالین،چادریں، شطریجیاں بکثرت تیار ہوتیں ہیں۔ تانبے پیتل کے برتن، سونے چاندی کے زیوارت،ہر قسم کا چمڑے کا سامان، طرح طرح کے ہتھیار، دیدہ زیب فرنیچر، ہاتھی کے دانت سے بنی اشیاءاور اعلیٰ کوالٹی کا کاغذ سمیت ہر قسم کی چیزیں یہاں تیار کی جاتی ہیں۔لیکن ہندوستان کچھ ایسے جال میں پھنسا کہ اس کی صنعت دم توڑنے لگی۔ جس قوم نے صنعت و حرفت میں ایک صدی پہلے اتنی ترقی کرلی تھی اگر حالات خراب نہ کیے جاتے تو آج اس کا حال کیا ہوتا۔

صاحب علم المعیشت لکھتے ہیں:

یہ سن کر شاید تعجب ہو کہ اس زمانے کے لحاظ سے ہندوستان کے لوگ جہاز سازی میں بھی خوب ہوشیار اور ماہر تھے۔چنانچہ گورنر جنرل لارڈ ویلزلی نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ:

صرف کلکتہ کی بندرگاہ پر دس ہزار ٹن کے قریب جہاز موجود ہیں، جو ہندوستان میں ہی تیار ہوئے ہیں اور ایسے ہیں کہ ان میں برطانیہ مال منتقل ہو سکتا ہے۔جبکہ بنگال کے جہاز اس کے علاوہ ہیں۔

ناظرین اب ہم آپ کو ایک مشہور مورخ کی بڑی ہی عجیب بات بتاتے ہیں جس سے آپ کو انگریزوں کی اصلیت کا پتا چلے گا۔

مشہور مورخ ٹیلر کہتا ہے:

ہندوستان کا مال لے کر ہندوستانی جہاز جب لندن کی بندرگاہ پر پہنچے تو وہاں ان جہازوں کو دیکھ کر سنسنی پیدا ہوگئی گویا کوئی جنگی بیڑہ گھس آیا ہے۔( یعنی لوگ ان جہازوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے ایسے جہاز لندن والوں نے کبھی دیکھے بھی نہ تھے۔) چنانچہ لندن کے جہاز سازوں نے شور برپا کردیا کہ ان کا کاروبار تباہ ہو جائے گا، اور برطانیہ کی جہاز سازی سے منسلک لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے فورا آرڈر جاری کیا کہ آئندہ ہندوستان کے جہاز لندن نہ جائیں، بلکہ ہندوستان کے ملازم بھی لندن نہ جائیں کیونکہ وہ وہاں ہماری اصلی حالت کو دیکھیں گے تو پھر ہمارا وہ رعب جو ہندوستان میں قائم ہو چکا ہے ختم ہو جائے گا۔

مسٹر مکر جی

اپنی کتاب میں تاریخ ہندوستان میں لکھتے ہیں:

سن 1802 کے بعد بھی ہندوستان سے جنگی اور تجارتی جہاز تیار ہو برطانیہ جایا کرتے تھے۔ یعنی یورپ ہم ہندوستان والوں سے جہاز خریدتا تھا۔ اسی طرح برطانیہ والے یہاں ہندوستان کے ماہر کاریگروں سے نقشے بھی بنوایا کرتے تھے گویا کہ ہم انجینئرنگ میں بھی برطانیہ سے آگے تھے۔

ناظرین: یورپ کے تیار کردہ جہاز صرف بارہ سال تک چلتے تھے، جبکہ ہندوستان کے تیار کردہ جہاز کی لائف پچاس سال سے زیادہ ہوتی تھی۔

ہندوستان میں لوہا ڈھالنے اور فولاد بنانے کا کام صدیوں سے جاری تھا، اور کتنی بڑی مقدار میں لوہے کو ڈھالا جاتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں جو ایک انگریز نے لکھی ہے۔ چنانچہ ایک انگریز لکھتا ہے:

چند سال پہلے تک دنیا کے سب سے بڑے کارخانوں میں اتنی بڑی لاٹھ کا ڈھالنا ناممکنات میں سے تھا اور اب بھی بہت کم کارخانے ایسے ہیں جو اتنی کثیر مقدارمیں دھات کو ڈھال سکتے ہیں ۔چنانچہ ایک اور مصنف لکھتا ہے ہندوستان میں جہاز سازی نہایت اعلی درجہ کی حالت میں تھی مگر انگریز اسے گوارا نہ کرسکے۔

ناظرین اس مختصر سی روداد سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ ہندوستان پہلے صنعتی اعتبار سے کتنا مضبوط ملک تھا ۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ انگریز یہاں آگیااس کے آنے کے بعد ہندوستان کی صنعتی حالت کا کیا حشر ہوا اب وہ بھی ذرا ملاحظہ کریں۔

انگریزوں کے آنے کے بعد ہندوستان کی صنعتی حالت

اٹھارویں صدی کے نصف تک ہندوستانی مصنوعات برطانیہ جاتی رہیں، لیکن انگریز نے سوچا اگر یہی صورتحال رہی تو ہم پر تباہ کن زوال آئے گا۔چنانچہ ہندوستان کی کپڑا سازی کی صنعت کا عروج دیکھ کر انگریزوں کے منہ میں پانی آگیا اور انہوں نے سب سے پہلے ہندوستان کی اسی صنعت پر وار کیا اور ایسا وار کیا کہ اسے تباہ کرکے رکھ دیا۔

سن 1769 کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اعلی عہدیداروں کو کہا کہ بنگال میں خام ریشم کی پیداوار کو بڑھاو جبکہ ریشم کی تیاری اور کپڑا سازی کو گھٹاو بلکہ مکمل ختم کرنے کی کوشش کرو۔ اور خام ریشم برطانیہ بھیجو اور یہاں سے ریشم کا کپڑا تیار کرکے ہندوستان بھیجو۔چنانچہ اس پر عملدرآمد کے لیے تین طریقے اختیار کیے۔

ایک یہ کہ ہندوستانی کاریگروں کو صنعت کاری سے روکا جائے۔ دوم یہ کہ ہندوستان کا مال برطانیہ میں نہ داخل ہونے دیا جائے۔ سوم یہ کہ برطانیہ کا مال زبردستی ہندوستانی مارکیٹ میں داخل کیا جائے۔چنانچہ ان تینوں طریقوں پر کام شروع ہوا۔ سب سے پہلے ہندوستانی کاریگروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ خودکپڑا سازی کام نہ کریں بلکہ ہمارے کارخانوں میں کام کریں، جو نہ مانتا اس پر سختی کی جاتی۔اس کے باوجود بھی جو لوگ اپنے طور پر کام کرتے تھے ان کو روکنے کے لیے جولاہوں کے چرخوں پر بھی بھاری ٹیکس لگا دیا گیا تاکہ کوئی بھی شخص خود کپڑے تیار نہ کرے بلکہ ہمارے کارخانے میں آکر کام کرے۔

ناظرین اپنے ان ظالمانہ قوانین کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں پر ٹیکس، جرمانے، کوڑے، قید اور ہاتھوں کی انگلیاں تک کاٹ ڈالیں، اور زبردستی کپڑا سازی کی صنعت کو ہندوستان میں بند کروایا گیا۔

اسی طرح دوسرا طریقہ ہندوستانی اشیاءکے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔اس کے پیچھے بھی پوری کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ برطانیہ میں پہلے ریشمی کپڑا اٹلی اور فرانس سے آتا تھا، جب ہندوستان سے آنا شروع ہوا تو یہ قیمت میں بھی کم تھا اور نفاست میں بھی عمدہ تھا، چنانچہ ہندوستانی کپڑا یورپ اور برطانیہ کی ساری مارکیٹ پر چھا گیا، انگریز عورتیں صرف ہندوستانی کپڑا ہی خریدتی تھیں، اس ساری صورتحال کو دیکھ کر پوری پلاننگ سے پہلے اخبارات اور رسالوں کے ذریعے اپنی عوام کا ذہن بنانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہندوستانی کپڑا نہ خریدیں اور پھر مختلف قوانین بنا کر ہندوستانی کپڑے پر فی گز کے حساب سے ٹیکس لگایا اور یہ ٹیکس ہر سال بڑھاتے بڑھاتے اتنا زیادہ کردیا کہ اب آزادنہ تجارت مشکل ہو گئی، اور ہندوستان کے سوتی کپڑے کی ایکسپورٹ بہت کم ہوگئی، جب ایکسپورٹ کم ہوئی تو کپڑا بننا بھی کم ہوگیا، بلکہ الٹا برطانیہ سے ہندوستان کپڑے کی زبردستی درآمد شروع کردی۔

چنانچہ ایچ ایچ ولسن لکھتا ہے:

ہندوستان کے بنے ہوئے سوتی اور ریشمی کپڑے خود برطانیہ کے بنے ہوئے کپڑوں سے ساٹھ ستر فیصد کم قیمت میں برطانیہ میں ملتے تھے، اگر ہندوستانی کپڑے پر بھاری ٹیکس نہ عائد کیے جاتے تو برطانیہ کے کاریگرگھر بیٹھ جاتے۔چنانچہ ہندوستانی کپڑے پر ٹیکس اور پابندی لگائی گئی، جس کے جواب میں ہندوستان کے حکمران کچھ نہیں کرسکتے تھے جبکہ برطانیہ کا مال ہندوستانی بندرگاہوں پر بغیر کسی ٹیکس کے زبردستی اتار لیا جاتا تھا۔

ناظرین یہاں آپ کی دلچسپی کے لیے میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج دنیا میں فری ٹریڈ یعنی آزادنہ تجارت کا بہت چرچا ہے، اور ہر ملک کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کرے، جبکہ جب ہندوستان کے عروج کا دور تھا انہیں انگریزوں نے اس آزادنہ تجارت پر اپنے ملکوں میں پابندی لگائی تھی، اب جبکہ ہندوستان تباہ حال ہو چکا ہے اور ساری صنعتیں یہاں ختم ہو چکی ہیں اس لیے اب دبارہ آزادانہ تجارت پر لیکچر دیے جاتے اور اس کے فوائد بتائے جاتے ہیں۔

ناظرین انگریزوں کے لوٹ مار کہ یہ وہ طریقے تھے جن کے ذریعے انہوں نے ہندوستان کو نہ صرف لوٹا بلکہ تباہ کرکے رکھ دیا۔ وہ ہندوستان جس کے بارے کپتان الگزینڈر 1833 میں لکھتا ہے:اس میں شک نہیں کہ اورنگزیب کے زمانہ میں ہندوستان کی تجارت کا مقابلہ یورپ کے بڑے بڑے ملک بھی نہیں کرسکتے۔

لیکن دنیا کا سب سے امیر یہ ملک انگریزوں نے ایسے لوٹا کہ سن 1800سے سن 1900تک صرف ایک صدی میں 31قحط آئے اور چارکروڑ لوگ بھوک سے مرے۔

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version