اقبال – از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست

اقبال – از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست

میخانہ رومی کھولنے کا وقت

علامہ اقبال، سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی نے 1933ء میں اس وقت کے افغان بادشاہ، نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا سفر کیا، جس کا بنیادی مقصد افغانستان کے نظامِ تعلیم کا مطالعہ اور اسکے متعلق سفارشات مرتب کرنا تھیں۔ علامہ نے اس سفر کی رُوداد ایک فارسی مثنوی “مسافر” کی صورت میں لکھی جو 1934ء میں پہلی بار الگ حیثیت سے شائع ہوئی اور پھر 1936ء میں انکی ایک اور مثنوی “پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق” کے ساتھ شائع ہوئی اور تب سے ایسے ہی چھپ رہی ہے۔۔

اس مثنوی “مسافر” میں زیادہ تر زیارات کا احوال قلمبند ہے، مثلاً کابل میں شہنشاہ بابر کے مزار پر حاضری، غزنی میں مشہور فارسی شاعر حکیم سنائی اور سلطان محمود غزنوی کے مزارات پر حاضری اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر علامہ کی حاضری۔

قندھار میں ایک خانقاہ میں رسولِ پاک (ص) کا ایک خرقۂ مبارک محفوظ ہے، علامہ نے اس خانقاہ پر بھی حاضری دی اور خرقۂ مبارک کی زیارت کی اور اپنے تاثرات کو قلمبند کیا اور اس کیلیے انہوں نے مثنوی کی بجائے غزل کا سہارا لیا کہ اس طرح کے تاثرات و کیفیات و احساسات غزل میں ہی صحیح طور پر قلمبند ہو سکتے تھے۔ اور یہی غزل درج کر رہا ہوں۔

از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست
در منزلِ لا بودم از بادۂ الّا مست

میں دیرِ مغاں (لفظی معنی شراب کشید کرنے والے کے مندر، مجازی معنی مرشد کی خانقاہ) سے شراب کو گردش میں لائے بغیر یعنی شراب پیے بغیر ہی مست ہو کر آیا ہوں۔ میں ابھی لا (نفی) کی ہی منزل میں تھا لیکن الّا (اثبات) کی شراب سے مست تھا۔ نفی اور اثبات صوفیا کا خاص شغل ہے اور علامہ نے اسی رنگ میں یہ شعر کہا ہے۔

دانم کہ نگاہِ اُو ظرفِ ھمہ کس بیند
کرد است مرا ساقی از عشوہ و ایما مست

میں جانتا ہوں کہ اُس (ساقی) کی نگاہ ہر بادہ خور کا ظرف پہچانتی ہے (اور اسکے ظرف کے مطابق ہی ساقی اسے شراب دیتا ہے) لیکن میرے ساقی نے مجھے صرف اپنے ناز و انداز سے ہی (بغیر شراب پلائے) ہی مست کر دیا ہے یعنی ہمیں ہمارے محبوب کی نگاہ ہی نے مست کر دیا ہے اور کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور یہ بات ہماری اعلیٰ ظرفی پر دلیل ہے۔

وقت است کہ بکشائم میخانۂ رُومی باز
پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست

یہ وقت ہے کہ مرشدِ رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں کیونکہ میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔ یعنی متاثرینِ فرنگ کا علاج رومی کی شراب میں ہے۔

ایں کارِ حکیمے نیست، دامانِ کلیمے گیر
صد بندۂ ساحل مست، یک بندۂ دریا مست

یہ کام(یعنی مسلمانوں میں دینِ اسلام کا صحیح فہم پیدا کرنا) عقل و دانش و حکمت کا کام نہیں ہے بلکہ اس کیلیے کسی کلیم اللہ (موسیٰ) کا دامن تھامنا چاہیے کیونکہ ساحل پر سرمستی اور باتیں کرنے والے سو آدمی بھی اس ایک کے برابر نہیں ہو سکتے جو سمندر کے اندر اتر کر مست ہے۔ حکیموں (فلسفیوں) کو “سبکسارانِ ساحل” سے تشبیہ دی ہے کہ فقط ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی باتیں کرتے ہیں جب کہ موسیٰ سمندر کے اندر اتر کر اس کو پار کر جاتے ہیں سو ایسے ہی کسی “ایک” آدمی ضرورت ہے نہ کہ سو سو آدمیوں کی جو سو سو باتیں کرتے ہیں۔

دل را بہ چمن بردم از بادِ چمن افسرد
میرد بہ خیاباں ہا ایں لالۂ صحرا مست

میں اپنے دل کو چمن یعنی محفلوں میں لے گیا لیکن وہ بادِ چمن (محفل کی رونقوں) سے اور افسردہ ہو گیا، (اور ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ) صحرا میں مست رہنے والا لالہ جب شہر کے چمن کی کیاریوں میں جاتا ہے تو مرجھا جاتا ہے۔

از حرفِ دل آویزش اسرارِ حرم پیدا
دی کافرَکے دیدم در وادیٔ بطحا مست

اسکی دل آویز باتوں سے حرم کے اسرار پیدا ہو رہے تھے، وہ چھوٹا سا (عشق کا) کافر جسے کل میں نے وادیٔ بطحا میں مست دیکھا۔

سینا است کہ فاران است؟ یا رب چہ مقام است ایں؟
ہر ذرّۂ خاکِ من، چشمے است تماشا مست

یا رب یہ مقام (جہاں خرقۂ مبارک رکھا ہے) سینا ہے یا فاران ہے کیا مقام ہے کیونکہ میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ اور بال بال نظارے میں مست رہنے والی آنکھ بن گئی ہے، یعنی سینا میں موسیٰ پر تجلیات وارد ہوئیں اور فاران سے حضور پاک (ص) کا نورِ نبوت چمکا سو علامہ یہ فرما رہے ہیں کہ یا رب یہاں اس مقام پر بھی تیری تجلیات نازل ہو رہی ہیں۔

اس غزل کو منشی رضی الدین قوّال نے گایا بھی ہے (سوائے پانچویں شعر کے) اور کیا خوبصورت گایا ہے

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version