افغانستان میں خواتین کی تعلیم کا مسئلہ
(سید عبدالوہاب شاہ)
دو روز قبل افغان حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت کالج، یونیورسٹیز میں خواتین کی کلاسز بند کردی ہیں۔ہمارے لیے یہ صرف ایک خبر ہے جبکہ افغان حکومت اس کی وجوہات بھی رکھتی ہے۔
چنانچہ ہمارے ہاں لبرل طبقے کے علاوہ بعض مذہبی اور مولوی لوگوں نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو روشن خیال ثابت کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھ کر سوشل میڈیا پر مذمتی بیانات جاری کیے۔ ان کی پوسٹیں دیکھ کر مجھے ایک مثال یاد آگئی۔ ایک چوڑا صفائی کرتے کرتے غلطی سے عطر کی دکان میں داخل ہو گیا، چنانچہ عطریات کی تاب نہ لاتے ہوئے بیہوش ہو کر گر پڑا، سارے لوگ پریشان ہو گئے کہ اسے کیا ہوا؟ ایک آدمی سمجھدار تھا اسے ساری بات سمجھ آگئی، چنانچہ وہ باہر نکلا، اور نالی سے تھوڑا سا بدبودار گند اٹھا کر اس کی ناک کے قریب کیا تو وہ بندہ اٹھ کھڑا ہوا، جسے فورا دکان سے باہر نکال دیا گیا۔
ہم جس معاشرے اور ماحول میں رہتے ہیں یہاں کالجوں، یونیورسٹیوں، پارکوں میں کیا کیا ہوتا ہےاسے تو ایک طرف رکھیں، ہمارے تو وزیر اعظم کی ویڈیوز اور آڈیوز آتی ہیں تو ہم مزے لینے کے لیے سنتے اور تبصرے کرتے ہیں، چہ جائے کہ کوئی آگے بڑھتا اور کوئی موثر آواز اٹھاتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
پاکستان میں بیٹھ کر آپ افغان معاشرہ یہاں سے قیاس نہیں کر سکتے۔یہاں کے علماء بھی وہاں کے معاشرے، روایات، یا ماحول پر فضول تبصرے نہیں کرسکتے، ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟ جن لوگوں نے چالیس چالیس ملکوں سے جنگیں کی ہوں جنہوں نے دشمن کے جنگی سامان کے نام بھی اپنی طرف سے رکھ دیے ہوں اور وہ ہیلی کاپٹر کو ہیلی کاپٹر کہنا گوارہ نہ کرتے ہوں کیونکہ یہ افغانی نام نہیں ان کو نرم گرم گدوں پر بیٹھ کر فیس بکی مشورے دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کوئی بیوقوف قوم نہیں ، بلکہ ہم سے زیادہ سمجھدار، عقلمند، بہادر، سچی اور متقی قوم ہے۔
افغان خواتین کی تعلیم کا مسئلہ دو روز قبل نہیں پیدا ہوا بلکہ یہ ہمیشہ سے ہی ایسا چل رہا ہے جس کے پیچھے ان کا پردے کا نظام رکاوٹ بن رہا ہے۔ ہم نے بحیثیت پاکستان فحاشی اور بے پردگی کو قبول کر لیا ہے اور اس پر کئی سال بھی گزر چکے ہیں، اب یہ چیز ہمیں نہ معیوب لگتی ہے اور نہ غلط لگتی ہے، اسی لیے ہمیں ان کا عمل عجیب سا لگتا ہے۔
معاشی مسائل
افغان حکومت تعلیم کی مخالف نہیں، بلکہ وہ تعلیم کی آڑ میں بے پردگی،بے حیائی، فحاشی کی اجازت نہیں دے سکتی۔ دوسری طرف ان کے پاس فی الحال اتنے وسائل نہیں کہ وہ تمام لڑکیوں کے لیے الگ عمارتوں، الگ اساتذہ ، الگ ہاسٹل وغیرہ کا بندوبست کر سکیں۔ دنیا نے ان کا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ ایسے میں تعلیم سے زیادہ اہم فحاشی و عریانی سے اپنی بچیوں کو بچانا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قصہ آدم و ابلیس میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ شیطان کا پہلا حملہ فحاشی و عریانی کی صورت میں ہوتا ہے، اور وہ آدمی کو آدمیت کے مقام سے گرانا چاہتا ہے۔
افغان حکومت کا مکمل معاشی بائیکاٹ صرف ان کے لیے امتحان نہیں بلکہ اصل میں باقی مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کا امتحان ہے، اللہ دیکھنا چاہتا ہے کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس لیے فیس بکی مولویوں سے گذارش ہے اپنا وزن گرتی ہوئی دیوار پر نہ ڈالیں بلکہ اسے سہارا دینے کی کوشش کریں۔
نظریاتی مسائل
میری ذاتی رائے میں افغان حکومت کے لیے کالج، یونیورسٹیز کی تعلیم کو عارضی طور پر بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت کالج یونیورسٹی لیول کی لیڈیز ٹیچر دستیاب نہیں، جو دستیاب ہیں بھی تو وہ نظریاتی اور فکری طور پر مکمل لبرل، سیکولر سوچ کی حامل ہیں۔ چنانچہ ایسی ٹیچر سے امارت اسلامیہ اپنی نسل کو بچانا چاہتی ہے۔ اگر افغان حکومت ان پر ہر طرح کی پابندی بھی لگا دیں، مثلا ٹیچرز سے کہیں آپ نے امارت اسلامیہ کے خلاف بات نہیں کرنی، آپ نے اسلامی نظام حکومت کے خلاف بات نہیں کرنی اور ٹیچرز بھی اس پابندی کو بظاہر قبول کرلیں تب بھی ان کی لبرل شخصیت کے اثرات سے نہیں بچا جاسکتا۔ چنانچہ افغان حکومت مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ اس خطرے کو مول نہیں لینا چاہتی کہ اگلے دس بیس سال بعد ہزاروں نوجوانوں پر مشتمل ایسی نسل تیار ہو جائے جو اسلامی نظام کے لیے کسی قسم کا مسئلہ کھڑا کرے۔