آٹزم کا سبب کیا ہے؟
گوہر تاج
آٹزم کی کوئی ایک واحد وجہ نہیں ہوتی، اس کا سبب دماغ کی ساخت یا اس کے کام میں بے قاعدگی ہوتی ہے اور اس کا اندازہ آٹزم میں مبتلا افراد کے دماغ کی اندرونی مشینی تصویر سے ہوا۔ تحقیق دان اس وقت بہت ساری ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈال رہے ہیں اور موروثیت، جینیاتی تبدیلی اور دوسری طبی وجوہات سے اس کا ربط ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گو ابھی تک کسی واحد جینیاتی مادے کی شناخت نہیں ہوئی ہے تاہم تحقیق دان ایسے جینیاتی مادوں کے مجموعہ کی تلاش میں ہیں کہ جو ان بچوں نے موروثی طور پر حاصلکیے ہوں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ بچے غالباً کسی محرک کے اثر سے زود حس ہیں مگر ابھی تک سائنسدان کوئی ایسا اُکسانے والا سبب تلاش نہیں کرپائے ہیں۔
کچھ دوسرے تحقیق دانوں نے اس امکان پر بھی تحقیق کی ہے کہ کچھ حالات میں کچھ چیزوں کا مجموعہ دماغ کی نشوونما میں مداخلت کرکے آٹزم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسرچ کے مطابق اس کی وجہ زمانہ حمل یا زچگی کے دوران مسائل کے علاوہ ماحولیاتی عوامل مثلاً وائرس انفیکشن یا ماحول میں موجود کیمیکل کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آٹزم کا وقوع پذیر ہونا ان افراد میں نسبتاً زیادہ ہے کہ جو پہلے ہی کسی طبی مسئلہ میں مبتلا ہیں، مثلاً:
Fragile tuberous sclerosis congenital rubella syndrome
X syndrome اور Untreated phenyl ketoneuria
آٹزم سے مدافعتی ٹیکوں کا تعلق بھی زیربحث رہا ہے۔ گو 2001ء کی ریسرچ کے مطابق اس امکان کو مسترد کیا گیا ہے کہ MMR ویکسین اور آٹزم کا تعلق ہے تاہم اسے حتمی مسترد بھی نہیں کیا گیا ہے اور اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، آٹزم بچوں کی غلط تربیت کا ہرگز نتیجہ نہیں، یہ کوئی ذہنی بیماری نہیں، ایسے بچے اپنی بدتمیزی کا انتخاب خود نہیں کرتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ ابھی تک کوئی نفسیاتی عوامل بھی ایسے نہیں ملے کہ جو بچوں میں آٹزم کا سبب بنیں۔
آٹزم کی تشخیص:
بہت سے دوسرے امراض کے برخلاف آٹزم کے کوئی طبی لیب ٹیسٹ مروج نہیں۔ اس کی تشخیص خالصتاً افراد کے رویے کا مشاہداتی تجزیہ ہے جس میں اس کے سماجی رویہ اور ذہنی نشوونما کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے، لیکن چونکہ اور بہت سے دوسرے امراض کی علامات بھی آٹزم سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بہت سے طبی ٹیسٹ کروا کے پہلے دیگر امراض کی موجودگی کے امکان کو مسترد کیا جائے۔
صحیح تشخیص کے لئے بچے کی نشوونما کی تفصیلی تاریخ کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس ضمن میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو مشاہداتی ٹیم بچے کے رویے کا جائزہ لیتی ہے اس میں نفسیات دان، بچوں کا وہ ڈاکٹر کہ جس کو Autism کی صحیح معلومات ہوں، ایک تعلیم دان، سکول سوشل ورکر اور اسپیچ اور لینگوئج پتھالوجسٹ شامل ہیں۔ ہر مرحلہ پر والدین کی فراہم کی ہوئی معلومات ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آٹزم کی علامات،علاج،اور رہنمائی
بچے کی تشخیص کو مثبت ثابت کرنے کے لئے آٹزم کی تقریباً 12 علامات میں سے 6 کا پایا جانا ضروری ہے اور ان علامات کا کم عمری سے ہونا ضروری ہے، ہوسکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح نظر آئے لیکن اس کی علامتوں کا ظہور بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ علامتیں اگر بچہ پہلا ہو تو واضح طور پر نوٹ نہیں کی جاتیں لیکن جس وقت دوسرا بچہ ہوتا ہے تو دونوں کے رویوں میں فرق سے آٹزم واضح ہوتا ہے۔
اس وقت یہ بات توجہ طلب ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں اس کے ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہیں اور اس کے ہونے کا تناسب ہر سال 10.17 فیصد بڑھ رہا ہے۔ اس حساب سے اگلے 10 عشرے میں صرف امریکہ میں چار ملین انسانوں میں آٹزم کی علامات ہوں گی۔ سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن 2001ء کے مطابق اس وقت 0.21 سال کے افراد میں سے تخمیناً 7.30.000 افراد آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں۔
تحقیق دانوں نے ایسے ٹیسٹوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو کم سے کم عمر میں بچوں پرکیے جاسکیں تاکہ جلد سے جلد ایسے بچوں کا علاج شروع ہوسکے۔ ذہنی عدم توازن کے لئے مروجہ آئی کیو ٹیسٹنگ اکثر ماں باپ کو پریشان کردیتی ہے۔ ان کے بچے میں اگر کسی صلاحیت کے اظہار میں دیر لگتی ہے تو وہ اس خوش خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوجائے گا لیکن اس ٹیسٹنگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بچہ دراصل اس وقت کس ذہنی سطح پر ہے، جلد از جلد تشخیص کا ہونا یوں بھی ضروری ہے کہ بچے میں سب سے زیادہ ذہنی نشوونما زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں ہوتی ہے اور اگر شروع میں ہی اس کا علم ہوجائے تو ممکنہ علاج کی جلد ابتدا ہوسکتی ہے اور والدین کو یہ پتہ ہوسکتا ہے کہ اگر ان کا بچہ آٹزم کا شکار ہے تو وہ کونسی دوسری صلاحیتیں ہیں کہ جن کو استعمال کرکے ان کی کمزوریوں کا کسی حد تک سدباب ہوسکتا ہے۔