آئی ٹی کی دنیا کے ڈیجیٹل مداری

(سیدعبدالوہاب شاہ)

پہلے مداری صرف میلوں ٹھیلوں ، اور تقریبات میں نظر آتے تھے ، لیکن جدید دور میں مداری بھی جدید ہوگئے ہیں، ٹیکنالوجی کااستعمال بھی سیکھ لیا ہے اور اپنی ڈگڈگی بھی بدل لی ہے۔پرانے مداری سڑک کنارے جب ڈگڈگی بجاتے تھے آہستہ آہستہ لوگ ان کے اردگرد جمع ہونا شروع ہو جاتے، جومداری جتنے زور سے اور جتنی تیزی سےڈکڈگی بجاتا اتنے ہی زیادہ لوگ جمع کرلیتا تھا۔مداری کا یہ کمال ہوتا تھا کہ وہ اپنی باتوں اور جسم کی حرکات و سکنات سے لوگوں کو اپنے سحر تخیل میں مبتلا کردیتا تھا۔ ایک عام اور سادہ آدمی یہی سمجھتا تھا کہ یہ مداری دنیا کا سب سے بڑا علم وہنر والا شخص ہے، چنانچہ یہ مداری پن دکھا کر وہ لوگوں کے جیبوں سے پیسے نکلواتا اور اپنی روزی روٹی چلاتا تھا۔

پھر مداری بھی کئی قسم کے ہوتے تھے، کچھ یہ کہتے کہ ابھی ہم آپ کو دنیا کا خطرناک ترین سانپ دکھانے والے ہیں، پٹاری کھولتے کھولتے ایک گھنٹہ لگالیتے، اگر اپنی مطلوبہ دیہاڑی نہ ملتی تو غصے سے پٹاری کھولنا ہی بند کردیتے اور اگر رقم مل جاتی تو ایک سانپ نکال کر دکھالیتے، بعد میں کس نے اس کا سر پھوڑنا ہوتا تھا کہ جناب یہ تو عام سا سانپ ہے۔بعض مداری حکیمی نسخے بیچتے اور اتنی لچھے دار تقریر کرتے کہ دائرے میں کھڑا ہر شخص اپنے آپ کو نامرد سمجھتے ہوئے ان کا نسخہ ضروری خرید لیتا۔حالانکہ یہ حکیم نہیں ہوتے تھے بلکہ دو چار نسخے کسی کتاب سے یا کسی حکیم سے سن کر یاد کیے ہوتے تھے، اور دعویٰ یہ کرتے تھے کہ حکیم بھی میرے شاگرد ہیں۔

آج ڈیجیٹل دور ہے یہ مداری بھی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوگئے ہیں۔علماء کے بیانات، فتاویٰ اور دینی تعبیرات میں سے چند ایک کو اٹھاکراسے اپنی مرضی سے ڈھال کر اور اپنی تعبیر میں لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ جب انہیں اسی فتوے کی روشنی میں ان کے عمل پر متنبہ کیا جائے تو آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں۔

قارئین کرام! جدید دور کے جدید مسائل میں علماء کا اختلاف ایک فطری عمل ہے، کئی مسائل وقت گزرنے ، لوگوں کے تعامل، اور تفصیلات سامنے آنے کے بعد متفق علیہ ہوچکے ہیں اور کئی مسائل میں ابھی اختلاف باقی ہے۔انہیں اختلافات میں سے ایک اختلاف ڈیجیٹل تصویراور ویڈیو کا بھی ہے۔

اس مسئلے میں علماء کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ اسے جائز اور دوسرا اسے ناجائز  کہتا ہے۔ جبکہ عملی طور پر تقریبا سب ہی کے نزدیک جائز ہے ، یعنی عملی طور پر شاذ و ناز ہی کوئی ایسا نظر آئے گا جو ڈیجیٹل تصویر یا ویڈیو سے اپنے آپ کو بچا پا رہا ہو۔ کیونکہ آج اکثریت کے پاس سمارٹ فون اور اس میں یوٹیوب، فیس بک ایپس نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔لیکن آئی ٹی کی دنیا کے ڈیجیٹل مداری اس اختلاف کی آڑ میں  اپنی ناکامیوں کو چھپا کرمطلب کی بات نکالتے ہوئے اپنے ٹوٹکے بھی بیچ رہے ہیں اور ان علماء کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ویڈیو گرافی کے جواز کے قائل ہیں۔

دین اسلام میں حلت و حرمت کے حوالے سے جو رہنمائی ملتی ہے ایک تو یہ ہے کہ یہ اختیار صرف اللہ کے پاس ہے، کیا حلال ہے ؟ اور کیا حرام ہے؟ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار کو اللہ کا اختیار قرار دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حلت و حرمت کا تعلق صرف کھانے اور کمانے سے نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے اور سننے سے بھی ہوتا ہے۔ جیسے کچھ چیزیں کھانے کی حلال وحرام ہیں ایسے ہی کچھ چیزیں دیکھنے اور سننے کی بھی حلال و حرام ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل مداری صرف کمانے پر حلت و حرمت کا فتوی لگاتے ہیں اور دیکھنے و سننے میں حلت و حرمت سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔صرف کمانے پر حلت و حرمت کی ڈگڈی بجانے والوں کا اصل مسئلہ میں بتاتا ہوں۔

میں نے کمپیوٹر کی بنیادی چیزیں  بائیوس اور نوٹ پیڈ ایک ہزار روپے فیس دے کر1998 میں سیکھیں تھیں۔ اس وقت سونا چار ہزار روپے تولہ ہوتا تھا۔ یعنی آج کل کے حساب سے پچیس ہزار روپے میں صرف بائیوس اور نوٹ پیڈ سیکھا۔ چنانچہ کمپیوٹر کورسز اسی طرح بہت مہنگے ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ 2015 تک جاری رہا اور پھر اچانک دنیا بھر میں ایڈسن کی طرف لوگوں کا دیہان زیادہ ہوگیا اور ہر ملک اور خطے سے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی اپنی صلاحیت، قابلیت، ہنر اور تجربے کو انٹرنیٹ پر شیئر کرنا شروع کردیا۔چنانچہ آج آپ کو انٹر نیٹ پر ہر چیز اور ہر قسم کا علم و فن مفت میں دستیاب ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ ڈیجیٹل مداری آج بھی ایم ایس آفس،کورل ڈرا، ایڈاب فوٹوشاپ وغیرہ  کورسز تیس تیس ڈالر میں بیچنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس کو بولنا آتا ہے وہ بول کر اپنا علم و فن دنیا کو دے رہا ہے۔ایسے میں ڈیجیٹل مداریوں کے لیے اپنا سودا بیچنا مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ علماء کے ایک طبقے کے فتوے کو توڑ مروڑ کر صرف اپنی مرضی کی بات نکال کر علماء کے دوسرے طبقے کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ علماء بھی ہماری مرضی کے فتوے جاری کریں۔جیسا کے اوپر عرض کیا پرانے مداری چند ٹوٹکے سیکھ کر بڑے بڑے حکیموں کو بھی اپنا شاگرد کہتے تھے یہ ڈیجیٹل مداری بھی علماء کو اپنا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ جب پوچھا جائے علماءکیسے آپ کی شاگردی میں آگئے تو کہتے ہیں ہم سے جدید مسائل میں مشورہ اور رہنمائی لیتے ہیں۔ یعنی آپ سے کوئی عالم دین مشورہ مانگے تو وہ آپ کا شاگرد ہوگیا۔؟

کچھ علماء کی رائے اور فتوی یہ ہے کہ ویڈیو اور ڈیجیٹل تصویرجائز ہے لہذا یوٹیوب پر ارننگ کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ ایڈ غیر شرعی نہ ہو۔ جبکہ کچھ علماء کے خیال میں ویڈیو اور ڈیجیٹل تصویر ہی ناجائز ہے۔ آپ اپنے موبائل میں ویڈیو اور جاندار کی تصویر نہیں لے سکتے، ایڈسن تو بعد کی بات ہے۔ لہذا ان علماء کے اس فتوے کی روشنی میں یوٹیوب،فیس بک ہی سرے سے ناجائز ٹھہر جاتی ہیں، کیونکہ فیس بک آپ کے کنٹرول میں نہیں، آپ جب اوپن کرتے ہیں تو لوگوں کے سٹیٹس، تصاویر ویڈیوز اور سپانسر ویڈیوز اور ایڈ خود بخود نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس میں موسیقی اور خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ ان سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا ایپس انسٹال ہی نہ کی جائیں۔

ڈیجیٹل مداریوں کا کہنا ہے ہم نے ایڈ بلاکر لگائے ہوئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے ایڈبلاکر آپ نے لگایا ہوا ہے سوا ارب مسلمانوں نے تو نہیں لگایا ہوا، آپ کس کس سے ایڈ بلاکر لگوائیں گے۔ اور فیس بک پر تو ویسے بھی ایڈ بلاکر کام نہیں کرتے۔ چلیں اگر آپ کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا تو جب آپ اپنی تحریریں اور دیگر مواد شیئر کرتے ہیں جنہیں دیگر مسلمان دیکھتے ہیں تو ان کا کیا ہوگا جو آپ کی تحریر یا مواد دیکھنے کی غرض سے فیس بک پر آئے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنا سامان ڈسکو کلب میں بیچنے کے لیے بھیج دے اور کہے میں تو وہاں نہیں جاتا۔ بھائی آپ تو نہیں جاتے لیکن آپ کا سامان خریدنے اور دیکھنے کے لیے لوگو تو وہاں جاتے ہیں، ان کا گناہ کس کو ملے گا۔

پھر ان مداریوں کی ایک اور دونمبری ملاحظہ کریں۔ یہ مداری ایڈسن کے مطلقا حرام قرار دینے کے لیے فتوے تو وہ دکھاتے ہیں جن میں ویڈیو کو ہی ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس میں سے صرف اپنے مطلب کی آدھی بات لیتے ہیں اور آدھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی کہے خنزیر کی ہر چیز حرام ہے، اس کا خون،چربی، کھال،بال، لعاب وغیرہ۔ لیکن یہ مداری بس یہی ڈگڈی بجاتے نظر آتے ہیں کہ خنزیر کی چربی حرام ہے چربی حرام ہے چربی حرام ہے۔

قارئین کرام اب ذرا ایک اور اہم موضوع پر بھی تھوڑی سی گفتگو کرلیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں آج کل پوری دنیا میں ارطغرل ڈرامہ کا بہت چرچا ہے۔جس پر لبرلز کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل مداریوں کا کہنا ہے یہ ڈرامہ صلیبی جنگوں پر بنی فلموں کی طرز پر بنایا گیا ہے۔

سوال کیا آپ نے ڈرامہ دیکھا؟

ہاں  دیکھا۔

تو کیوں دیکھا کیا ویڈیو حرام نہیں؟

نہیں نہیں  دیکھا ۔

نہیں دیکھا تو کسی سنی سنائی بات پر آپ کیسے پروپیگنڈا کرسکتے ہیں؟آپ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ویڈیو حرام ہے اس لیے ڈرامہ بھی حرام ہے۔

قارئین۔ آج کے مسلمان اور آج سے سو سال پہلے کے مسلمان کے رہن سہن، شکل و صورت، تہذیب و تمدن مذہبی سوجھ بوجھ سمیت ہر چیز تبدیل ہو چکی ہے۔ اور یہ تبدیلی گن پوائنٹ پر یا جنگوں کے ذریعے نہیں آئی۔اگر جنگوں کے ذریعے آتی تو آج افغان قوم بھی تبدیل ہو چکی ہوتی جہاں کئی دہائیوں سے جنگیں مسلط ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ تبدیلی کیسے آئی؟

یہ تبدیلی میڈیا کے ذریعے لائی گئی ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، فلمیں ڈرامے، فیس بک، یوٹیوب کے ذریعے یہ ساری تبدیلی لائی گئی۔

یہ تبدیلی  ویپن وار سے نہیں بلکہ کونٹینٹ وار سے آئی ہے۔ ڈیجیٹل مداریوں کو اپنے فتووں کی روشنی میں یہ تو فیق نہیں ہوتی کہ لوگوں کو کہیں بھائی فیس بک اور یوٹیوب مت اوپن کیا کرو(خنزیر سارا حرام ہے)۔ لیکن یہ وہی رٹ لگائے ہوئے ہیں چربی نہ استعمال کرو۔

کیونکہ اگر یہ اپنے فتووں پر عمل کریں گے تو ان کے تیس ڈالر والے کورسز کون خریدے گا۔

اس کونٹینٹ وار میں اللہ نے ترکی والوں کو یہ توفیق دی کہ انہوں نے یہود و نصاری کی ستر سالہ محنت پر ایک ہی ہلے میں پانی پھیر دیا۔ اور انہوں نے اس شیر کو جو اپنے آپ کو بکری سمجھ بیٹھا تھا یہ باور کرادیا تم بکری نہیں شیر ہو شیر ہو۔  جہاد فی سبیل اللہ جسے مسلمانوں نے بھی دہشت گردی سمجھ لیا تھا اس ڈرامے نے بچوں اور بوڑھوں کی رگوں میں بھی انتقام کی آگ لگا دی۔

اگر کسی کے نزدیک ویڈیو دیکھنا حرام ہے وہ نہ دیکھے اس پر کوئی زبردستی نہیں لیکن جو سارا دن فیس بک اور یوٹیوب کھول کر بیٹھا ہے، انڈین فلمیں ڈرامے، لوگوں کے سٹیٹس، تصویریں دیکھتا ہے وہ اگر اس کو دیکھ لے تو کم از کم ایک بڑی برائی سے تو بچ جائے گا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کفار،ٹمپلر، یہود ونصاری کی سازشوں اور مسلمان کلچر،تاریخ،جہاد فی سبیل اللہ کے بارے  اس کا نظریہ اور سوچ غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہو جائے گی۔

مداری صرف ڈرامے پر فتوے بازی نہ کریں بلکہ یہ کہیں فیس بک ہی ناجائز ہے۔

مداریوں کا کہنا ہے ہر چیز کے دو طرح کے استعمال ہوتے ہیں اگر اسے اچھا استعمال کیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر برا استعمال کیا جائے تو غلط ہے ہم فیس بک کا اچھا استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی مداریوں کی بہت بڑی غلط فہمی ہے اور فتوے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہے۔یہ فتوی ان چیزوں کے بارے میں ہے جو مکمل آپ کے کنٹرول میں ہوں۔ جیسے چھری یا پسٹل ہوتا ہے۔ ان کے دونوں پہلو ہیں اچھا بھی اور برا بھی۔ اگر اچھا استعمال کیا تو استعمال جائز ہے اور غلط استعمال کیا تو استعمال ناجائز ہے۔چھری خود نہیں چلتی لہذا یہ فتوی ایسی چیزوں کے بارے میں ہے۔اسی طرح کمپیوٹر اور موبائل بھی آپ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب آپ نے فیس بک اوپن کرلی تو آپ کا کنٹرول ایک حد تک ہی رہتا ہے اس سے آگے آپ کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔اور آپ کو بہت ساری تصویریں سٹیٹس،ویڈیوز، ایڈ خود بخود نظر آتے ہیں۔

ڈیجیٹل مداری یاد رکھیں جس طرح ناجائز چیزوں کے اشتہارات سے کمانا ناجائز ہے اسی طرح ناجائز اشتہارات کو دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ اور یہ ناجائز اشتہارات آپ کو خود بخود فیس بک اور یوٹیوب پر نظر آتے ہیں۔یہ مداری ویڈیو کو حرام بھی کہتے ہیں اور دیکھتے سنتے بھی ہیں۔ آپ کے پاس صرف ایک ہی صورت ہے فیس بک اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کا استعمال ہی ترک کردیں۔

#نکتہ #Nukta

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version