کہاں گئے وہ نباض

کہاں گئے وہ نباض؟

ایس اے ساگر
ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے جب آنجہانی حکیم چنن رام نے ایک مریض کی نبض کا معائنہ کرتے ہوئے پوچھا:
کیا تم نے کبھی ڈاڑھ بھروائی تھی؟
مریض کی نبض دیکھ کر حکیم صاحب دوا تجویز کرتے تھے اور علاج کرتے تھے.
مریض نے کہا: میری ڈاڑھ میں کچھ نہیں ہوا ہے. میں تو سر کے درد سے پریشان ہوں.
حکیم صاحب نے اپنا ہاتھ مریض کی نبض پر سے اب تک نہیں ہٹایا تھا. اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے اپنا سوال پھر دہرایا: میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا تم نے کبھی ڈاڑھ بھروائی تھی؟
مریض نے کہا: جی ہاں.
حکیم صاحب بولے: اس ڈاڑھ میں مواد پیدا ہوگیا ہے. یقین نہ ہوتو الٹراساونڈ کروالو. میں تمھیں ڈاڑھ کا مواد سکھانے کی دوا دوں گا. مواد جب ختم ہوجائے گا تو سردرد خودبخود ختم ہوجائے گا.

نبض کیسے چیک کریں؟

ماہرین کے نزدیک علم نبض طب قدیم میں ابتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں، فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کو تفصیل سے بیان کردیتے ہیں۔
سائنس کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اور حرکت سے حرارت پیدا ہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یا حرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہوگا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کا نام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلات دخانیہ کو خارج کیا جائے اس کا ہر نبضہ (ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک بنضہ انسباط اور انقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کا ہونا ضروری ہے۔

نبض دیکھنے کا طریقہ:

طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں۔
اجناس نبض:
نبض کی دس اجناس ہیں
1۔ مقدار
2۔ قرع نبض
3۔ زمانہ حرکت
4۔ قوام آلہ
5۔ زمانہ سکون
6۔ مقدارِ رطوبت
7۔ شریان کی
8۔ وزنِ حرکت
9۔ استوا واختلا ف نبض
10۔ نظم نبض
مقدار:
1۔ طویل
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔
2. عریض
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہوگی۔
3. شرف (بلند)
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دباؤ نہ ڈالیں۔ اگر نبض انگلیوں کو بلا دباؤ چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اور اگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اور اگر انگلیاں کلائی پر دبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہار کرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اور منخفض اعصابی ہوگی۔
قرغ نبض — ٹھوکر نبض:
اس میں نبض کی ٹھوکر کو جانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کو دبائیں اگر نبض انگلیوں کو سختی سے اوپر کی طرف دھکیل رہی ہے تو ایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کو ظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دباؤ درمیانہ سا ہو تو معتدل ہوگی۔ اور جو نبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اور ضعیف اگر؛عریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اور ضیق ہوتو غدی ہوگی۔
زمانہ حرکت:
اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع۔ متعدل۔ بطی۔
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سرد نسیم یعنی آکسیجن کی بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس) کی زیادتی ہے۔
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیز تر نبض عضلاتی ہوتی ہے اور بطی (سست) نبض اگر عریض ہوگی تو اعصابی ہوگی اور ضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔
قوام آلہ – شریان کی سختی ونرمی:
اسے بھی تین اقسام میں بیان کیا گیا ہے صلب، معتدل اور لین،
صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کا اظہار ہو۔ یہ بدن کی خشکی کو دلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔
زمانہ سکون:
اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر، تفاوت، معتدل۔
متواتر نبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہو جو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتا ہے۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یا توحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یا پھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔ عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یا پھر اگر عریض ہو تَو اعصابی بھی ہوسکتی ہے۔
نبض دیکھتے وقت اس بات کو خاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعد ٹھوکر آکر انگلیوں کو لگتی ہے اور پھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کو مدنظر رکھیں۔ پس یہی زمانہ سکون ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شریان کی حرکت بہت کم محسوس ہو بلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔
مقدارِ رطوبت:
نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیسا کہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کا اندازہ لگایا جائے کہ ٹیوب کے اندر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یا کم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اور دبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا۔ اگر ممتلی ہو تو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اور روح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضر ہے اسی طرح اگر نبض خالی ہوگی تو خون اور روح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی۔
شریان کی کیفیت:
نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی) کو پرکھا جاتا ہے اس کو جانچنا بہت آسان ہے اگر نبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہو تو یہ نبض حار ہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اور گرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے۔ اگر نبض پر ہاتھ رکھنے سے مریض کا جسم سرد محسوس ہو تو یہ نبض بارد ہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔
وزن حرکت:
یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبار سے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کا زمانہ حرکت اور زمانہ سکون مساوی ہے۔
اگر یہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط (پھیلنا اور سکٹرنا) کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہا جاتا ہے
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہو بلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میں یہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہو تو ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔ اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے تو ایسی نبض غدی ہوگی اور اگر یہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے تو ایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کو مدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کو خارج الوزن کا نام دیا گیا ہے۔
اگر نبض عمر کے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کو صحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے، جوان، بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تو یہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اور انبساطی صورت کو جانچا جاتا ہے۔ نبض جب پھیلے تو اس کو حرکت انسباطی کہتے ہیں اور جب اپنے اندر سکڑے تو اسے حرکت انقباص کہتے ہیں۔ ان دونوں کے زمانوں کا فرق ہی اسکا وزن کہلاتا ہے۔
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کو خاص طور پر مدنظر رکھیں ایسی نبض کو حتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگر اقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔
استوا واختلاف نبض:
اسکی صرف دو ہی اقسام ہیں مستوی اور مختلف۔
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے۔
نبض مختلف وہ نبض ہے جو مستوی کے مخالف ہو اور اس کے برعکس پر دلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پر ہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگر ان میں ربط قائم ہے اور معتدل حیثیت رکھتی ہیں تو وہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔

مرکب نبض کی اقسام:

تعریف:
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کر ایک حالت پیدا کردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے اور خاص امراض میں نبض کی جو مرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہو سکتا ہے ۔
وہ چند مرکب نبضیں درج ذیل ہیں
1۔ نبض عظیم
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہو۔ ایسی نبض قوت کی زیادتی کا اظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یا وموی کہیں گے جو نبض تینوں اعتبار سے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کا اظہار ہے اور وہ اعصابی نبض ہوگی۔
2۔ نبض غلیظ
غلیظ وہ نبض ہے جو صرف چوڑائی اور بلندی میں زیادہ ہو۔ ایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔
3۔ نبض غزالی
وہ نبض ہے جو انگلی کے پوروں کو ایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اور سکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔
غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔
4۔ موجی نبض
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجود ہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اور کہیں سے پست کہیں سے چوڑی اور کہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہو رہی ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے قانون مفرد اعضاء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔
5۔ نبض دودی
(کیڑے کی رفتار کی مانند) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اور ممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویا اس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پر دلالت کرتی ہے لیکن سقوط قوت پورے طور پر نہیں ہوتا اس نبض کو دودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔
6۔ نبض ممتلی
یہ وہ نبض ہے جو نہایت ہی صغیر اور متواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پر ساخط کے ہو جانے اور قربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اور متواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔
7۔ نبض منشاری
(آرے کے دندانوں کی مانند)
یہ وہ نبض ہے جو بہت مشرف، صلب، متواتر اور سریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اور بلندی میں اختلاف ہوتا ہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اور بعض زیادہ بلند ہوتے ہیں اور بعض پست گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ یعنی ایک پورے کو جس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ کسی عضو میں ورم پیدا ہو گیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اور عضلات میں صاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔
نبض ذنب الفار، نبض ذولفترہ، نبض واقع فی الوسط، نبض مسلی، مرتعش اور ملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطباء بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطابق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔
نبض کے بارے تجدیدِ طب کی رہنمائی مکمل اور کا فی ہے۔ مجدد طب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کو انتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کر دیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرد اعضا میں مفرد نبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض، عضلاتی نبض، اور غدی نبض سے موسوم کیا گیا ہے۔ پھر ہر ایک مرکب نبض کی اقسام کو انہیں اعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ (۶) اقسام میں تقسیم کر دیا ہے، جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں
1۔ اعصابی عضلاتی
2۔ عضلاتی اعصابی
3۔ عضلاتی غدی
4۔ غدی عضلاتی
5۔ غدی اعصابی
6۔ اعصابی غدی
اب پہلے مفرد نبض کی شناخت ووضاحت کو بیان کیا جاتا ہے۔
اعصابی نبض:
ایسی نبض جو قیصر ہو منخفض ہو، عریض ہو، لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے۔ انگلیوں کو زور سے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میں بلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔
عضلاتی نبض:
جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپر ہی بلندی پر محسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اور سریع ہو اور قوی ہو تو ایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی، ریاح، سوداور بواسیری زہر کا اظہار کرتی ہے۔
غدی نبض:
مریض کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور آہستہ آہستہ انگلیوں کو دباتے جائیں۔ اگر نبض درمیاں میں واقع ہو تو یہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی، ضیق ہوگی۔ یہ جسم میں حرارت اور صفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرارت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی۔ یاد رکھیں، جب طویل نبض مشرف بھی اور قوی بھی ہو تو عضلاتی ہوگی۔
خصوصی نوٹ:
نبض بالکل اوپر بلندی پر عضلاتی، بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔

مرکب نبض:

قانون مفرد اعضاء میں مرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں

اعصابی عضلاتی:

جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے، اعصابی عضلاتی ہوگی۔ یہ نبض گہرائی میں ہوگی۔ بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگر دبانے سے فوراََ دب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ
منہ کاذائقہ پھیکا، جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم، دل کا ڈوبنا، رطوبت کا کثرت سے اخراج، پیشاب زیادہ آنا اور اس کا رنگ سفید ہونا، ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔

عضلاتی اعصابی:

اگر نبض پہلی اور دوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔ مقامی طور پر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پر ہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی۔ رطوبت کااثر اگر باقی ہو تو سست وعریض بھی ہو سکتی ہے۔
تشخیصی علامات:
چہرہ سیاہی مائل اور اس پر داغ دھبے، چہرہ پچکا ہوا، اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی، ترش ڈکار، جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔

عضلاتی غدی:

اگر نبض پہلی دوسری اور تیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اور تنی ہوئی ہوگی۔ یاد رکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہو اور مشرف وسریع بھی ہو تو عضلاتی غدی شدید ہوں۔
تشخیصی علامات:
عضلات وقلب میں سکیٹر، فشار الدم، ریاح کا غلبہ، اختلاج قلب، جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اور نیند کی کمی ہوگی۔

غدی عضلاتی:

اگر نبض چار انگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طور پر مشرف اور منحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہو تو ایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔
تشخیصی علامات:
جسم زرد، پیلا، ڈھیلا۔ ہاتھ پائوں چہرے پر ورم۔ یرقان، پیشاب میں جلن، جگر وغدد اور غشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹر شروع ہو جانا۔

غدی اعصابی:

اگر مقامی طور پر غدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہو جائے تو یہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔
تشخیصی علامات:
جگر کی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور، پیچش، پیشاب میں جلن، عسرالطمت، نلوں میں درد، بلڈپریشر اور خفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔

اعصابی غدی:

اگر نبض منخفض ہوجائے، عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی۔
تشخیصی علامات:
جسم پھولا ہوا، چربی کی کثرت، بار بار پیشاب کا آنا۔
بعض اطباء نے ہر نبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کر دی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سر سے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مثلاََ جس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں۔ اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہو گئی ہے۔ ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا۔ اور دوسرا نفس مضمون سے دوری کا باعث ہوگا ۔

مرد اور عورت کی نبض میں فرق:

عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میں سکون ہوکر جسم اور بچے کو مکمل غذا نہیں ملتی۔ اگر عورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یا حمل ہوگا یا اس میں مردانہ اوصاف پیدا ہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یا جن میں شرم وحیاء کم ہوجاتا ہے۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اور ورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔
(ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر ۹ تا ۱۰)

اہمیت نبض:

جو لوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیں اور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لئے نبض دیکھ کر امراض کا بیان کر دینا بلکہ ان کی تفصیلات کا ظاہر کر دینا کوئی مشکل بات نہیں۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پر پوری دسترس حاصل کر لیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتا ہے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکات ہی کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس میں خون کے دباؤ خون کی رطوبت اور خون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے۔ ہر حال میں دل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتا ہے۔

راز کی بات:

دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پر دو عدد پردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپر کا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اور اس کے اوپر بلغمی اور اعصابی پردہ ہوتا ہے۔جو شریانیں دل اور اس کے دونوں پردوں کو غذا پہنچاتی ہیں۔ ان میں تحریک یا سوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتا ہے جس سے ان میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میں کمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ
شریان میں خون کا دباؤ قلب کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میں تحریک سے ہوتی ہے۔
خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میں تحریک سے پیدا ہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اور جگر وغدد کے افعال کا علم ہوجاتا ہے۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بار ظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔

تشخیص کے چند اہم نکات:

(۱) حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف
جسم کے بعض امراض وعلامات میں ذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے تو ان میں تکلیف پیدا ہوجاتی ہے، یا شدت ہو جاتی ہے ایسی صورت میں عضلات وقلب میں سوزش ہوتی ہے۔ حرکت سے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔
(۲) آرام کی صورت میں تکلیف:
جب آرام کیا جائے تو تکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اور طبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔ آرام سے جسم میں رطوبت کی زیادتی ہو جاتی ہے۔
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر ۱۱۱ تا ۱۱۲)
(۳) خون آنا
اگر معدے سے لے کر اوپر کی طرف سر تک کسی مخرج سے خارج ہو تو یہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اور اگر جگر سے لے کر پاؤں تک کسی مخرج یا مجریٰ سے خارج ہو تو یہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔
ضرور ی نوٹ:
تشخیص الامراض میں عضلاتی اعصابی اور عضلاتی غدی یا غدی عضلاتی اور غدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگر وقتی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو کسی قسم کا فکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میں تحریک پیدا کر دینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔

تشخیص کی مروجہ خامیاں:

طب یونانی وطب اسلامی میں تشخیص کا پیمانہ نبض وقارورہ ہے۔ ملک بھر کے لاکھوں مطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوں میں پوری توجہ سے پڑھایا جاتا ہے۔ شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پر دسترس کی تعلیم دیتا ہو۔ اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں، دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفرد اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حد تک دسترس رکھتے ہیں۔
اس طرح مذاکرہ، دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھمادیا جاتا ہے۔
اگر کوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتا ہے اس کی تشخیص کا جو انداز ہے، اس پر بھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے، بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند، تبخیر ہو یا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذا یہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ، امعاء، جگر، طحال اور لبلبہ کی تشخیص کر بھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیا جائے گا۔ لیکن اس امر کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خود مرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پر عضلات، اعصاب اور غدد واقع ہیں مگر یہاں پرب ھی صرف معدہ کو مریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضو ہے۔ یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علامات بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جا رہی ہے اور علاج بھی کلی طور پر معدہ کا کیا جا رہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کر دی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شمار کرلیا جاتا ہے۔
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اور علامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جدا ہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپ، امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اور وہ پریشان اور بے چین ہیں اور اس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے۔ امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجدد طب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضاء (Simple organ theory) فطرت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہوتے ہیں ان کی جدا جدا صورتیں سامنے آجاتی ہیں۔  ہر صورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں، جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمار ہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے۔ انسان میں آخر کونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے تو وہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تو دراصل کوئی پرزہ ہی تو خراب ہوجاتا ہے اسی طرح شوگر، بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جو صرف علامات کی بنیاد پر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون، دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا۔ اس کی ایک دوائی ہی سر سے لے کر پاؤں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی۔ انشآء اللہ
توقع ہے کہ قارئین ان معلومات سے خاطر خواہ استفادہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی کو خوشگوار بنائیں گے.

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version