سہانجنا Moringa

سہانجنا Moringa

مورنگا ( سہانجنہ) کرشماتی پودا

مورنگا کثیرالمقاصد کرشماتی خوبیاں رکھنے والا پودا ہے۔ یہ نیچرل ملٹی وٹامن ہے، غذائیت سے مالا مال ہے۔ انسانوں اور جانوروں کیلئے بہت بڑی نعمت ہے۔

مورنگا کاتعارف

نباتاتی نام ۔ مورنگا اولیفیرا Moringa Olifera

اور:  مورنگا پٹیروگاسپرما

 Botanical Name: Moringa pterygosperma Gaertn.de.Fruct

خاندان : مورنگیسی

Family:Moringaceae

انگریزی نام: ہارس ریڈش ٹری 

Horse raddish tree

دیسی نام: سوہانجنا Sohanjana

ابتدائی مسکن(ارتقائ): پاکستان اور سب ہمالیہ۔اور راولپنڈی میں پایاجاتا ہے۔

قسم: پت جھاڑ

  قد: 10-12 میٹر

پتے : مرکب ہیں70-30 سینٹی میٹر لمبے،پتیاں سیدھی ہیں اور چھال مڑی ہوئی ہے ۔

پھولوں کا رنگ: سفید ،   پھول آنے کا وقت: فروری اور اپریل۔پھول 2.4 سینٹی میٹر لمبے اور شہد کی خوشبو جیسے،لمبی پینسل کی طرح

پھل : پھل لمبا اور کیپسول کی طرح 50-25 سینٹی میٹر لمبا۔بیج اگست میں پکتا ہے اور 2.4 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔

کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔

مورنگا کو اردو میں سہانجنہ کہتے ہیں پنجابی میں بھی سہانجنہ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ سندھی میں سہانجڑو کہتے ہیں۔
اس پودے کا قدرتی مسکن شمالی ہند اور جنوبی پاکستان ہے۔یہ درخت بیس سے پینتیس فٹ اونچا ہوتا ہے۔اس کو سال میں دو تین مرتبہ پھل اور پھول لگتے ہیں۔ اس کی لکڑی بہت نرم اور نازک ہوتی ہے۔اس کی ٹہنیوں سے باریک باریک شاخیں نکلتی ہیں جن پرچھوٹے چھوٹے پتے ایک دوسرے کے مقابل لگتے ہین۔ پھلیاں تقریباً ایک فٹ لمبی اور انگلی کے برابر موٹی ہوتی ہیں جن سے تکونے بیج نکلتے ہیں۔ اس درخت کے تنے سے کیکر کی مانند گوند نکلتا ہے۔ پھولوں کی رنگت کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں سفید اور سرخ پھولوں والا۔
تیل۔ مورنگا کے بیجوں سے 36٪ تیل نکلتا ہے۔ یہ تیل بے بو اور بے ذائقہ ہوتا ہے ۔ مدتوں پڑا رہنے سے بھی خراب نہیں ہوتا۔
ذائقہ ۔ قدرے تلخ

مزاج ۔

گرم خشک درجہ سوم۔
افعال و استعمال ۔ مورنگا کے پھولوں پتوں گوںد اور جڑوں کو سرد بلغمی امراض میں مدتوں سے استعمال ہو رہا ہے۔
نیوٹریشن کے لحاظ سے مورنگا کی اہمیت
مورنگا کاپودا نہایت قیمتی اور کرشماتی خصوصیات کا حامل ہے اس پودےمیں تقریباً 92 غذائی اجزا یعنی نیوٹرینٹ اور 46 قدرتی انٹی آکسیڈنٹ (مانع عملِ تکسید مادے) موجود ہیں کوئی ایسا وٹامن ابھی تک دریافت نہیں ہوا جو اس پودے میں موجود نہ ہو۔ مورنگا کی ان خصوصیات کی وجہ سے اگر اس پودے کو غذائیت کا پاور ہائوس کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

سہانجنا Moringa ایک جائزہ

نیو ٹرین ویلیو کے حساب سے اگر سہانجنا Moringa مورنگا کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ غذائیت کے اعتبار سے کوئی دوسرا درخت یا پودا اس کا مقابلہ نہیں کرتا۔
مورنگا کے پتوں کے 100 گرام پوڈر میں
پروٹین کی مقدار دودھ اور دہی کی نسبت 2 گنا سے زیادہ ہے
وٹامن سی کی مقدار 7 عدد سنگتروں سے زیادہ ہے
وٹامن اے کی مقدار گاجر کی نسبت 4 گنا سے زیادہ ہے۔
آئرن کی مقدار بادام کی نسبت 3گنا زیادہ ہے۔
وٹامن ای کی مقدار پالک کی نسبت 3گنا سے زیادہ ہے۔
مورنگا انسان دوست کسان دوست اور غریب پرور درخت ہے۔
مورنگا میں بے پناہ شفائی خصوصیات پائی جاتی ہیں جدید تحقیق کے مطابق مورنگا سے سینکڑوں بیماریوں کاعلاج کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔ ایور وید ک طریقہ علاج میں 300 بیماریوں کا علاج مورنگا سے کیا جاتا ہے۔
مورنگا کے پتے انسانوں اور جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ غذائی قلت دور کرنے کیلئے مورنگا کادرخت ایک بہتریں حل ہے۔
شہرت
یہ پودا اس وقت شہرت کی بلنڈیوں پر پہنچا جب افریقہ (سینیگال) مین قحط کے دوران اسے غزا کی کمی دور کرنے والے درخت کے طور پرچرچ کی طرف سے متعارف کروایا گیا۔ اس درخت کے پتوں نے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا بلکہ اس کے بیجوں کے سفوف سے پانی صاف کرکے پینے کے قابل بنایا گیا اور اس کے بیجوں اور تیل کو بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال کیا گیا۔
مورنگا ایک کثیرالمقاصد پودا ہے۔
غذائیت اور شفائی اجزا کی بدولت مورنگا کثیرالمقاصد پودا ہے۔ ہم اس کے ذریعے فصلوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکتے ہین۔ اس کو پانی صاف کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پودے کو لائو سٹاک کی خوراک کے طور پر استعمال کرکے مویشیوں کو صحت مند اور فربہ کیاجاسکتا ہے اورانکے دودھ میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل دنیا کا مہنگا ترین تیل ہے۔ اس تیل کو ناسا جیسے ادارے سپیس انویسٹی گیشن کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

سہانجنا Moringa کی غذائی اہمیت

مورنگا کے پتوں کا 50گرام سفوف پورے دن کی غذائی ضروریات کیلئے کا فی ہے اورجسم میں غذائیت کے مختلف اجزائ کی کمی نہیں ہوتی۔ گوشت اور پھلوں جیسی مہنگی خوراک کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس سے ایک غریب آدمی آسانی سے اپنی غذائی ذروریات پوری کر سکتا ہے۔اپنے آپ کو صحت مند اور توانا رکھ سکتا ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
مورنگا کے درخت کا ہر حصہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ہر حصے کو غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسکے تازہ پتوں کو پالک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو پکایا جا سکتاہے۔خشک کرکے سفوف بناکر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سلاد سے لیکر سالن تک بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی پھلیان بھی پکائی جاتی ہیں۔ اس کی جڑوں کو بھی غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جڑوں میں البتہ ایک زہریلا الکلائیڈ پایا جا تا ہے لیکن اس کی مقدار خاصی کم ہوتی ہے۔ اس کے برے اثرات جڑوں کو بہت زیادہ استعمال کرنے سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔
مورنگا کی مولیوں کا اکثر لوگ اچار بناکر استعمال کرتے ہیں جولزیز ہونے کے ساتھ ساتھ غذائی اور طبی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔
سہانجنا Moringa پھولون کی ڈوڈیوں کو عام طور پر سے گوشت کے ساتھ پکاکر بہت لزیز سالن تیار ہوتا ہے جسے تقریبًا پاکستان کے تمام علاقوں میں رغبت سے کھایا جاتا ہے۔

دل کی بیماری ٹھیک ہو گئی

میں 35 سال سے شوگر کا مریض تھا ۔پچھلے ڈیڑھ سال سے ھارٹ پیشنٹ اور سانس کی تکلیف مین مبتلارھا۔۔راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے مسلسل علاج کروا رھا تھا بدن میں اتنی کمزوری تھی کہ صحن میں چلنا مشکل تھا اور سٹک کا سہارا لینے پر مجبور تھا۔۔
مگر اب میں روزانہ ایک کلو میٹر واک کرتاھوں وہ بھی سٹک کے بغیر۔۔نہ ھی سانس پھولتی ھےنہ ھی کبھی درد دل ھوتاھے اور شوگر فاسٹنگ مسلسل 100 dl/mg سےکم رھتی ھے۔۔۔شکر الحمد للہ۔۔
کیوں؟
مسلسل سوھانجنا کے پتوں کا سفوف ایک ماہ سے 10 ملی گرام(ایک ٹی سپون) تینوں وقت پانی سے لے رھا ھوں۔۔
آج میں نے 4 سال کی پوتی کو اٹھا کر بغیر کسی سہارے کے محلے کی دوکان تک لے جا کر اسے چیزی دلوائی۔۔۔ماشاء اللہ کہئے گا۔۔۔
اب ایک ھفتے سے ورثا کا ملٹی گرین آٹا کھا رھا ھوں۔۔اور میری انسولین کی مقدار بھی مسلسل کم ھو رھی ھے۔۔
لھذا دوستو۔۔
نو ڈاکٹر۔۔۔۔نو دوائی۔۔نو بیماری۔۔
سوجانجنا کے پتوں کا سفوف استعمال کریں۔۔قنواہ سوھانجنا جو جئی چیا۔۔باجرہ۔۔گندم کےبغیر چھنے آٹے میں ملا لیں۔۔۔اور تینوں وقت روٹی بنا کر کھائیں۔۔۔
بہت سی موجودہ بیماریاں جڑ سے ختم ھو جائیں گی۔۔۔ککنگ آئل۔اور ڈالڈا گھی کی جگہ دیسی گھی مکھن زیتون کا تیل یا اگر افورڈ ایبل نہ ھو تو میٹھی سرسوں کے تیل میں ھانڈی پکوا کر کھایا کریں۔۔اور ھاں تھوڑی تھوڑی واک اھستہ آھستہ بڑھاتے جائیں اور 1.5+1.5=3kmروزانہ کم از کم واک کریں۔۔
اس پیغام کو دوسروں تک لازمی شئیر کریں۔۔
۔دعا گو:-
آصف محمود طارق

طبی لحاظ سے سہانجنا Moringa مورنگا کی اہمیت۔

مورنگا کے خشک پتوں کا سفوف 10گرام روزانہ استعمال سے جھوٹھی بھوک، پیاس ختم ہوجاتی ہےجس سے موٹاپا ختم کرنے اور وزن کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
شوگر کنٹرول کرنے اور شوگرکی وجہ سے جسمانی کمزوریون کودور کرنے کیلئے مورنگا کے خشک پتوں کا سفوف بطور فوڈ سپلیمنٹ بہت کار آمد ہے۔
مورنگا کے پتوں کا پانی بلڈ پریشر کو نارمل رکھنے میں مدد دیتا ہے اور بےچینی کو ختم کرتا ہے۔
مورنگا کے پتے اسہال پیچش اور قولو ن کے ورم کیلئے مستعمل ہیں
اسکے پتوں کا جوس گاجر کے جوس کے ساتھ ملا کر پیشاب آور کے طور پر مستعمل ہے۔
پتوں کاجوس جلد کیلئے بطور اینٹی سیپٹک یا جراسیم کش استعمال کیا جاتا ہے۔
پتوں کاجوس سوزاک کی بیماری کیلئے مفید ہے۔
تازہ پتوں کی پلٹس بناکر غدودی سوزش یا گلٹی ختم کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
اس کے پتے بخار ، گلے کی سوزش، آنکھوں اور کانوں کی انفیکشن کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
سکروی اور میوکس ممبرین یالعابدار جھلی (غشائے مخاطی) کی سوزش کیلئے اس کے پتے مستعمل ہیں۔
پتوں کا استعمال خواتین کے دودھ میں اضافہ کرتاہے، اور خون کی کمی کیلئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں
مورنگا بڑھاپے کے اثرات کو سلو اور کم کرتا ہے کیونکہ یہ اینٹی ایجنگ Anti agingخصوصیات کا حامل ہے.
۔
(مورنگا کیپسول حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:
03470005578
100 کیپسول صرف 700 روپے 

یہ بھی دیکھیں: سہانجنا کے سائیڈ ایفکٹس

کاشت

اس کی کاشت مشکل لحالات میں بھی آسانی سے ممکن ہے۔ اس کی کاشت بیکار زمینوں میں جہاں کوئی دوسری فصل کاشت نہیں کی جاسکتی ممکن ہے۔ اس درخت کی اپنی غذائی ضروریات بہت کم ہیں ۔ اس کی جڑیں تنے سے تیں گنا نیچے زمیں میں جاکر خوراک تلاش کرتی ہیں۔

کاشت بذریعہ قلم

جب مورنگا کے درخت پر پھول اور پھل موجود نہ ہون اس وقت تقریباً ایک انچ قطر موٹی اور 4 سے 6 فٹ لمبی قلمیں شاخیں کا ٹ کر تیار کرلیں۔ زمیں میں ایک مربع فٹ چوڑا اور تین فٹ گہرا گڑھا کھود لیں ۔ اس گڑھے کے درمیان میں قلم کھڑی کرکے گڑھے کو بھل خشک گلے سڑے پتوں اور دیسی گلی سڑی کھاد کو برابر مقدار میں مکس کرکے گڑھے کو اس سے بھر دیں اور قلم کے چاروں طرف تھوڑی ٹھوڑی مٹی چڑھا دیں۔ پانی اسطرح سے لگائیں کہ قلم کو صرف نمی پہنچے ڈائریکٹ پانی نہ ملے۔

سہانجنا Moringa کی کاشت بذریع بیج

بیج کے ذریعے مورنگا کے درخت کی کاشت ڈائریکٹ فیلڈ میں بھی کی جا سکتی ہے اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں پودے تیار کرکے کھیت میں منتقل کئے جا سکتے ہیں ۔
فیلڈ میں مورنگا کے درخت کی کاشت بذریع بیج کرنے کیلئے لائن سے لائن کا فاصلہ 10 فٹ اور پودے سے پودے کا فاصلہ 6 ٖفٹ رکھیں اور نشان لگا لیں۔ تمام نشانات پر ایک ؐمربع فٹ چوڑےاورا یک فٹ گہرے گڑھے تیار کرلیں۔ بھل پتوں اورگلی سڑی قدرتی کھاد کو اچھی طرح مکس کرکے تمام گڑھوں کو اس سے پھر دیں ۔ہر گڑھے میں کسی لکڑی یا انگلی سے ایک انچ گہرا سوراخ بنائیں اور اس میں دو عدد بیج کاشت کر دیں اور پا نی لگا دیں۔ تقریباً دو ہفتے کے اندر بیج اگ جائیں گے۔

چارے کی فصل کیلئے سہانجنا Moringa کی کا شت 

تین تین ٖفٹ کے فاصلے پر کھیلیاں بنا کر وٹوں پر پودے سے پودے کا ٖفاصلہ ایک فٹ رکھ کر 2 سینٹی میٹر گہرا بیج بوئیں۔
مولیوں کیلئے مورنگا کی کاشت۔
اس مقصد کیلئے لائن سے لائن کا فاصلہ تین فٹ رکھیں پودوں کا درمیانی فاصلہ جتنا کم ہوگا مولیاں اتنی ہی اچھی تیار ہوں گی
پانی
شروع شروع میں پانی ہر ہفتے لگائیں بعد میں ضرورت کے مطا بق تقریباً دو ماہ بعد۔ ۔
کھاد
بطورفصل کاشت کیئے گئے مورنگا کو دوبوری یوریا کھاد فی ایکڑ ڈالنے سے بہت بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
درختوں کے طور پر کاشت کیئے گئے پودوں کو زیادہ کھد کی ضرورت نہیں ہوتی ان کیلئے پتون وغیرہ کی قدرتی کھاد کافی ہوتی ہے۔

سہانجنا Moringa کی کاشت اور فوائد

پودا زمین سے پانی ، نائٹروجن ، فاسفور س ، پوٹاشیم ، میگنیشیم ، سلفر، لوہا، زنک سمیت کم از کم سترہ غذائی اجزاء نمکیات کی شکل میں زمین سے حاصل کرتا ہے ۔ جن کے بغیر پودا اپنی زندگی کو پورا نہیں کر سکتا۔ ان کے علاوہ پودے میں بہت سارے مرکبات ضرورت کے مطابق بنتے توٹتے رہتے ہیں۔ جن میں وٹامن، گروتھ ہارمون اور مدافعتی نظام کو بہتر کرنے کے مرکبات شامل ہیں۔ یہ مرکبات اگرچہ قلیل مقدار میں ہوتے ہیں مگر یہ دیگر غذائی اجزاء کو بنانے اور پودے کی بڑھوتری میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرکبات اگر پودے پر سپرے کر دیے جائیں تو پودا اپنے اندر یہ گروتھ ہارمون اور مدافعتی نظام میں معاون مرکبات کو خود بھی تیزی سے بنانا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں پودے کی بڑھوتری میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ موسم کی سختیوں مثلاََ شدید سردی ، شدید گرمی ، کلراٹھی زمینوں اور پانی کی کمی کا بہتر انداز میں مقابلہ کرتا ہے ۔ یہ مرکبات کیمیائی طور پر بھی بنائے جاتے ہیں اور فصلوں کے اوپر ان کا سپرے نہایت موثر پایا گیا ہے مگر عمومی طور پر یہ نہات مہنگے ہوتے ہیں اور کسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔
سائنسدان ایک عرصے سے ایسے مرکبات کو بنا کر پودوں کے اوپر استعمال کر رہے ہیں۔ جن میں سے کچھ کم قیمت والے مارکیٹ میں گروتھ پر موٹر کے نام سے دستیاب بھی ہیں ۔سائنسدان ایک عرصہ سے ان مرکبات کا کوئی آسان ، سستا اور قدرتی ذریعہ ڈھونڈرہے تھے ۔ اس ضمن میں ایک ایسا پودا سامنے آیا ہے جس میں قدرتی گروتھ ہارمون اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے والے مرکبات دوسرے پودوں کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس پودے سے یہ مرکبات حاصل کر کے مختلف فصلوں پر استعمال کیے گئے جس کے نتیجہ میں اسے 16سے 40فیصد تک پیداوار میں اضافہ ، موسمی سختیوں اور کیڑے مکوڑوں کے خلاف مدافعت میں نہایت موثر پایا ۔اس پودے کے ایک کلو تازہ پتے کوٹ کر یا پیس کر ایک صاف ململ کے کپڑے میں پوٹلی بنائیں اور 20لیٹر والی سپرے کی ٹینکی میں صاف پانی بھر کر چائے کے ٹی بیگ کی طرح نچوڑ دیں۔ ایسی 3ٹینکیاں فی ایکڑ فصل کے اوپر سپرے کردیں۔ یعنی ایک ایکڑ کے لیے تین کلو پتے 60لیٹر پانی میں۔ یہ سپرے دو سے تین دفعہ فصل کے اہم مرحلے پر سپرے کریں مثلاََ گندم پر پہلا سپرے شگوفے نکلنے ، دوسرا گوب اور تیسرا سٹے نکلنے پر کریں۔ اس طرح باقی فصلوں پر بھی سپرے کریں ۔جبکہ سبزیوں پر ہر 15دن بعد سپرے کی جاسکتی ہے ۔ اگر فصل پر کسی زہر کا سپرے کرنا ہو تو وہ اس محلول میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ قدرت کے اس انمول خزانے کو بے پناہ غذائی ، طبعی ، صنعتی خصوصیات کی وجہ سے ’’زندگی کا پودا‘‘کہا جاتا ہے ۔ یہ پودا ہے سوہانجنا جسے مورنگا بھی کہا جاتا ہے ۔دنیا کے مختلف حصوں میں اس کے مختلف استعمال صدیوں سے جاری ہیں جن میں زیادہ تر طبی استعمال ہیں۔ یہ پودا جنوبی پنجاب میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔ جبکہ وسطی پنجاب میں اس کی جڑوں کااچار نہایت شوق سے کھایا جاتا ہے ۔ یہ پودا برصغیر کا مقامی پودا ہے اور یہاں سے پوری دنیا میں پھیل رہا ہے ۔ اس پودے کو با آسانی بیج یا قلم سے کاشت کیا جاسکتا ہے ۔
یہ پودا ایک سال میں 10سے 15فٹ کا درخت بن جاتا ہے۔اس پر سال میں ایک دفعہ پھول آتے ہیں جو کہ بعد میں پک کر پھلیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ ایک درخت کی پھلیوں سے آٹھ سے دس ہزار بیج حاصل ہوسکتے ہیں۔ جن سے سوہانجنا کو فصل کے طور پر بھی کاشت کیا جاسکتا ہے ۔ بیج کو کپاس اور مکئی کی بجائی کی طرح 1فٹ کے فاصلے پر لگایا جاتا ہے ۔ جب یہ پودے تین فٹ پر پہنچ جائیں تو ان کو اوپر سے کاٹ دیا جاتا ہے پھر بار بار 10سے 20دن کے وقفہ سے اس کے پتے بطور چارہ یا فصلوں پر سپرے کے لیے کاٹ کر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ دسمبر سے لے کر مارچ تک اس کے پتوں کی بڑھوتری رک جاتی ہے ۔ باقی سارا سال اس سے پتے مہیا ہوتے رہتے ہیں۔ جب سوہانجنا کا درخت پھول دینا بند کردے تو اس وقت اس کی ایک انچ قطر والی شاخیں اور چار سے چھ فٹ لمبائی رکھ کے کاٹ لی جائیں۔ زمین میں ایک فٹ چوڑا اور 3فٹ گہر ا گڑھا بنا ئیں اس کے درمیان میں قلم رکھیں۔ پھر ریت، بھل اور پتوں کی کھاد کے آمیزے سے بھر دیں۔ سوہانجنا کی قلم کے اردگرد مٹی چڑھا دیں اور اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ پانی براہ راست قلم کو نہ لگے بلکہ صرف نمی پہنچے ۔ اس طریقے سے سخت سردی کے علاوہ سارا سال پودا اگایا جاسکتا ہے ۔ جس جگہسوہانجنا کے درخت اگانا چاہیں وہاں 5×5فٹ کے فاصلے پر نشان لگائیں اور ہر نشان پر ایک فٹ گہرااور ایک فٹ چوڑا گڑھا بنا کر اسے ریت، بھل اور قدرتی کھاد سے بھر دیں پھر اس میں ایک انچ سوراخ بنائیں اور اس میں سوہانجنا کے دو عدد بیج ڈال دیں اور پانی لگا دیں ۔ دو ہفتے کے اندر پودے اگ آئیں گے جب یہ پودے چھ انچ کے ہو جائیں تو ہر سوراخ میں ایک صحت مند پودا چھوڑ کر باقی نکال دیں۔ اگر براہ راست فیلڈ میں بیج کاشت کرنا ممکن نہ ہو تو پہلے نرسری پلاسٹک کی تھیلیوں میں مٹی، ریت ، بھل اور قدرتی کھاد کے آمیزہ سے بھر لیں اور نرسری تیار کر لیں۔ایک سے دو ماہ تک ان پودوں کو نرسری میں رہنے دیں اور پھر کھیت میں منتقل کر دیں۔ چارہ حاصل کرنے کے لیے دو سے تین فٹ کے فاصلے پر کھییلیاں بنا کر ’’وٹ‘‘ کے اوپر 1فٹ کے فاصلہ پر 2سینٹٰ میٹر گہر بیج لگائیں اور فوراََ پانی لگائیں ۔ جبکہ مولیاں حاصل کرنے کے لیے پودوں کا درمیانی فاصلہ جتنا کم ہو گا مولیاں اتنی ہی اچھی بنے گی ۔
شروع شروع میں ہر ہفتہ وار پانی دیں اور پھر تقریباََ دو ماہ بعد حسب ضرورت پانی لگائیں۔ ایک ایکڑ میں دو بوری یوریا کھاد ڈالنے سے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بجائی کے 24گھنٹے کے اندر اندر Round Upبوٹی مار سپرے کریں۔ فروری ، مارچ اور جولائی اگست میں اس طریقے سے کاشت کرنا بہتر ہے ۔ سوہانجنا کے تمام حصوں کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے پھل کوسوہانجنا کی پھلیاں کہتے ہیں ۔ جو سبزی کے طور پر پکائی جاتی ہیں اور اچار ڈالنے کے کام بھی آتی ہیں۔ اسی طرح اس کے پھول اور کونپلیں بھی سبزی کے طور پر پکانے کے کام آتی ہیں۔ مورنگا کے نوعمر پودوں کی جڑیں سوہانجنے کی مولیاں کہلاتی ہیں۔ جو عام مولیوں کی جگہ پکانے کے لیے اور اچار ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کی مولیوں اور پھلیوں سے بننے والا اچار انتہائی لذیز اور توانائی بخش ہوتا ہے۔ اس کے پتوں کی چٹنی اور سوپ بھی انتہائی مزیدار اور توانائی بخش ہے ۔ اس کے استعمال سے چہرے پر جھریاں نہیں ابھرتی اور بڑھاپا بھی دور بھاگتا ہے ۔ مورنگا کی سب سے زیادہ غذائیت اس کے تازہ پتوں میں ہے جو دیگر پتوں والی سبزیات میں شامل کر کے پکائے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی کڑواہٹ کم کرنے کے لیے پتوں کو ابال کر پانی نکال دیا جاتا ہے تو بہتر ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ غذائی استعمال سوہانجنے کے خشک پتوں کا بطور سفوف استعمال ہے ۔ پتوں کو چھاوں میں خشک کر لیا جاتا ہے جسے بعدازاں پیس کر ہوا بند مرتبان میں محفوظ کر لیا جتا ہے ۔ بالغ افارد کے لیے 50گرام جبکہ بچوں کے لیے 25گرام روزانہ استعمال بیشتر غذائی ضروریات پوری کر دیتا ہے اور صحت میں نمایاں بہتری لاتا ہے جبکہ اس کے استعمال سے ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ ایک چمچ روزانہ کا استعمال بلڈ پریشر، شوگر، جسمانی کمزوری اور دیگر امراض میں مفید ہے ۔ خشک پتے انتہائی مفید گرین چائے ہے جو دماغی اور جسمانی قوت کی بحالی اور کم خوابی کے لیے دنیا بھر میں استعمال کی جاتی ہیں۔ سوہانجنا کے تازہ پتوں کا نچوڑ فصلوں کے لیے ایک عمدہ قسم کا گروتھ ہارمون ہے ۔ نچوڑ نکالنے کے لیے پتوں کوبرقی شیکر یا اوکھلی میں پیس کر ململ کے کپڑے سے نچوڑ لیں اس مقصد کے لیے بازار میں دستیاب انا رکا رس نکالنے والی مشین بھی کامیابی سے استعمال کی جاسکتی ہے ۔ سوہانجنا کے رس میں 30حصے پانی ملا کر فصل بونے سے پہلے بیج کو آٹھ گھنٹے بھگو لیں۔ بعدازاں سائے میں بیج خشک کر کے بوائی کر دیں۔ یہی محلول فصلوں کو سپرے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس سے تقریباََ تمام فصلوں اور سبزیات میں 10سے 40فیصد تک پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
مورنگا کے پتے نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کے لیے بھی بہترین خوراک ہیں۔ شروع میں جانور اس کے قدرے کڑوے ذائقہ کو پسند نہیں کرتے مگر چند روز میں عادی ہوجاتے ہیں۔ مورنگا مکمل چارے کی بجائے دن میں چند بار دیگر چارہ جات کے ساتھ ملا کر دینے سے نہ صرف جانوروں کا دودھ اور وزن بڑھ جاتا ہے بلکہ ان کی صحت بھی بہتر ہوجاتی ہے ۔ اس کا مناسب استعمال ونڈے کی ضرورت کو کم یا مکمل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ اس کے استعمال میں نہ صرف جانوروں کے دودھ اور گوشت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معیار بھی بہتر ہوتا ہے ۔ 2گرام بیج کا پاؤڈر 10لٹر پانی میں اچھی طرح مکس کر کے رکھ دیں ۔ دو گھنٹے بعد پانی نتھار لیں ۔ 99%جراثیم مر جاتے ہیں اور زہریلے نمکیات ، مٹی اور دیگر کثافتیں نیچے بیٹھ جاتی ہیں۔ اوپر سے نتھار کے بہترین پینے کا پانی تیار ہوجاتا ہے ۔ مورنگا کا درخت دو سے تین سالوں میں بیج دینے شروع کر دیتا ہے ۔ اس کے بیجوں سے عمدہ قسم کا شفاف تیل عام کوہلو سے نکالا جاسکتا ہے ۔ یہ تیل کوالٹی میں بہت عمدہ اور زیتوں کے تیل کے برابر ہوتا ہے اور اسے کھانے کے تیل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ تیل دیگر استعمال میک اپ کے سامان کی تیاری اور مہنگی گھڑیوں میں بطور لبریکنٹ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک درخت سے تقریباََ 3-4کلو بیج حاصل ہوتے ہیں اور ایک کلو بیج سے تقریباََ ایک پاؤ تیل نکلتا ہے ۔ جو کہ بے پناہ فوائد کا حامل ہے ۔ پکانے کے دوران یہ تیل دوسرے تیل کی نسبت زیادہ دیر تک قابل استعمال رہتا ہے اور نہ صرف کھانے کو لذیز بناتا ہے بلکہ جسم میں قوت مدافعت بھی پیدا کرتا ہے ۔ اس کو برآمد کر کے کثیرزر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ تیل دنیا کا مہنگا ترین تیل ہے ۔ جبکہ بیج کا باقی حصہ مرغیوں اور جانوروں کی
خوراک کے طور پر استعمال میں لا یا جاسکتا ہے ۔ جو توانائی سے بھرپور ہوتا ہے ۔ مورنگا بے شمار بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور یہ ایک بہترین غذائی ٹانک ہے ۔ اس کے پتے ،جڑیں،پھول ، بیج ، گوند اور چھال میں موجود انٹی بیکٹریل اجزاء کئی بیماریوں کے علاج میں انتہائی مدد گار ہیں ۔ کینسر ، ایڈز اور یرقان وغیرہ جیسی متعدی بیماریوں کے خلاف بہترین قوت مدافعت پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے ۔ اسی لیے اس کی خوبیوں کی بدولت امریکہ کے خلاف ادارے NASA نے اسے 21ویں صدی کا اہم ترین پودا قرار دیا ہے

سہانجنہ کے درخت کو اگر بڑھنے دیا جائے 10 سے 12 میٹر(32 سے 40 فٹ 20فٹ)تک بلند اور1.5 فٹ تک موٹاہو سکتا ہے۔اس کا تنا 4 سے 5 فٹ تک سیدھا جاتا ہے ،پھر اس کی شاخیں نکلتی ہیں ۔اس کی ہر شاخ پر کئی چھوٹی شاخیں لگی ہوتی ہیں ۔تنے کی چھال ملائم اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کے پتے عموما 25 سے 50 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں اس کے پھول سفید رنگ کے ، خوشبوداراور 1.5 سے 2 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں ۔ اس کی پھلیاں 15 سے 30 ملی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔اس کے بیج سہ گوشہ ہوتے ہیں۔ سوہانجنہ کی لکڑی بہت نرم و نازک اور جلد ٹوٹنے والی ہوتی ہے ۔ماہ فروری میں اس درخت پر گچھوں کی شکل میں سفید رنگ کے پھول بکثرت لگتے ہیں اور مارچ تک یہ درخت پتلی پتلی گول اور لمبی پھلیوں سے لد جاتا ہے۔اس کے بیج بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں اس کی ان کھلی کلیاں ، کچنار کی کی طرح پکا کر بہت شوق سے کھائی جاتی ہیں ۔یہ پھلیاں گوشت میں ڈال کر پکائی بھی جاتی ہیں ۔اس کا پودا جب ایک یا دو سال کا ہوتا ہے تب اس کی جڑ بے ریشہ ، سفید رنگ کی مولی کی طرح مخروطی شکل کی ہوتی ہے۔ ان جڑوں(جنہیں سہانجنہ کی مولی کہا جاتا ہے ) کو نکال کر اچار ڈالا جاتا ہے جوملک کے دیگر علاقوں خصوصا پنجاب بھر میں کافی معروف ہے۔یہ اچار بلغمی امراض میں مفید ہے۔ پیشاب آور ہے اور پتھری کو توڑتا ہے۔سہانجنے کی جڑوں کے علاوہ اس کی پھلیوں کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے ۔کچھ علاقوں میں اس کے پھولوں کا اچار بھی ڈالتے ہیں یہ اچارمقوی معدہ ہے ، پیٹ کی ریاح (گیس) کے لئے مفید ہے۔

یہ چونکہ یہاں کا مقامی پودا ہے اس لئے اسے مختلف امراض میں بطور علاج بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ دیسی طریقہ علاج جسے عرف عام میں طب یونانی کہا جاتا ہے ، میں یہ طبی طور پر زیادہ معروف نہیں ، البتہ ایورویدک میں اسے کافی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کا طبی استعمال کافی محدود ہے ۔
اس درخت کی چھال کا سفوف استسقاء، نوبتی بخاروں ،مرگی ، اختناق الرحم(ہسٹریا) ، فالج ، پرانا گنٹھیا، ورم جگر وطحال اور بدہضمی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس درخت کی چھال یا اس کی جڑ کی چھال کا جوشاندہ یا اس کی تازہ جڑ کا رس بھی جگر کی خرابی سے پیدا ہونے والے استسقاء (پیٹ اور پھیپھڑوں میں پانی پڑنا)میں مستعمل ہے۔اس جوشاندہ سے غرارے کرنے سے منہ کے چھالوں ، مسوڑوں کے درد میں آرام آتا ہے۔اس کے بیج بھی استسقاء استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بیجوں کا تیل نقرس اور گنٹھیا کے علاج میں بطور مالش استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پھول بعض اوقات دودھ میں پکا کربطور مقوی باہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ان پھولوں کا رس دودھ کے ساتھ دافع سنگ مثانہ (مثانہ کی پتھری) اور مقوی معدہ ہے۔دمہ میں بھی ان پھولوں کا استعمال مفید ہے—— اس کی چھال میں سے ریشے بھی نکلتے ہیں جن سے چٹایا ں ، کاغذ ، اور رسے بنتے ہیں۔ اس کے بیجوں کا تیل مشینری کے پرزوں میں بطور لبریکنٹ استعمال ہوتا ہے ۔ گھڑی ساز عموما یہی تیل گھڑیوں کے پرزوں کے رواں رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔(ماخذ پاک و ہند کی جڑی بوٹیاں – حکیم صوفی لچھمن پرشاد)

دنیا کے دیگر علاقوں اور ممالک میں بھی یہ طبی طور پر مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہوتا ہے ۔جدید تحقیقات سے ان روایتی طریق علاج کی نہ صرف تائید ہوئی بلکہ کچھ نئی خصوصیات بھی سامنے آئی ہیں مثلا شیرافزا ہونے کی وجہ دودھ پلانے والی ماؤں میں اس کا استعمال دودھ کی کمی کو پورا کرتا ہے ۔تازہ پتے ابال کر شیرافزا کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں وٹامن سی کا حامل ہونے کی وجہ سے یہ دافع سکروی ہے ۔غدہ درقیہ کی زیادتی کو ختم کرنے اور مانع حمل خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں اس کے پتوں کا چبانا سوزاک میں پیشاب کے بہاؤ کو بڑھانے کے لئے مفید ہے۔اس کے پتوں کا پلٹس (ضماد)غدودوں کی سوجن دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔مانع تکسید ہونے کی وجہ سے عمررسیدگی (بڑھاپا) کے اثرات کو زائل کرتا ہے اور دافع تکسید مرکبات کی موجودگی اسےسرطان میں مفیدبناتی ہے۔یہ کولیسٹرول کوختم کرکے بلڈپریشر کوکم کرتا ہے ۔بلڈپریشرکم ہونے سے اس کی وجہ سے ہونے والے سردرد ، درد شقیقہ میں نافع ہے۔ دافع شوگر خصوصیات کی وجہ یہ ذیابیطس میں مفید ہے۔ اس کے پتے ذرا بھون کرناریل کے تیل میں ملا کر زخموں پر لگائے جاتے ہیں۔

ہندوستان میں اس کی جڑیں ابال کر سوجن پر بطور پلٹس استعمال کرتے ہیں۔یہ پیشاب آور ، دافع تشنج ، دافع السرخصوصیات کی حامل بھی ہے ۔تازہ جڑ پیشاب آور ہے۔ حیض آور اور مسقط رحم ہے ۔اس کی جڑیں اسقاط حمل میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس لئے حاملہ عورتوں کو اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔یہ ضدحیوی (اینٹی بائیوٹک) دافع پھپھوند، دافع سوزش خصوصیات کی وجہ سے زخموں اور ہر قسم کی سوزشوں میں کو ختم کرتی ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ زخموں اور قروح کو دھونے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ گلے کی دکھن میں استعمال کیا جاتا ہے

نگاراگوا میں اس کی جڑوں کا جوشاندہ استسقاء میں استعمال ہوتا ہے۔مسہل ہونے کی وجہ سے اس کے پتے قبض کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔پھلیاں۔ جوڑوں کے درد میں مفید ہے ۔اس کی جڑوں کا رس دودھ میں ڈال کر پینے سے دمہ، ہچکی ، گنٹھیا اور درد کمر(چک) میں فائدہ ہوتا ہے۔۔ آنتوں کے کیڑوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔دافع تشنج ہونے کی وجہ سےاس کی جڑوں کی چھال کا جوشاندہ کی ٹکور تشنج رفع کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی گوند بھی مسقط حمل ہے۔گوندتل کے تیل کے ساتھ کانوں کے درد میں استعمال ہوتی ہے۔ جڑوں کا رس بھی کان درد میں استعمال ہوتا ہے۔جاوا میں اس کی گوند آنتوں کے امراض میں استعمال ہوتی ہے۔جمیکا میں اس کی لکڑی نیلا رنگ دینے کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ اس کےبیج گنٹھیا۔ دمہ، بلند فشار خون، ہچکی میں مفید ہیں اور پیشاب آور ہیں

مورنگا کے پتوں کی غذائی خصوصیات(جدید تحقیق)

مورنگا کے چھوٹے پتے بطور سلاد اورپالک اورمیتھی کے ساتھ ملا کر بطور سبزی پکا کر استعمال کیے جاسکتے ہیں-اس کے پتے غذائی قلت کا بہترین حل ہے۔ان کے تازہ پتوں کا سوپ بھی تیار کیا جاتا ہے۔100 گرام پکائے ہوئے پتوں میں 3.1 گرام لحمیات ، 0.6 گرام فائبر، 96 ملی گرام کیلشیم ، 29 ملی گرام فاسفورش ، 1.7 ملی گرام لوہا ، 2820 ملی گرام بیٹا کیروٹین ، 0.07 ملی گرام تھایامین ، 0.14 ملی گرام رائبوفلیون ، 1.1 ملی گرام نیاسین، اور 53 ملی گرام وٹامن سی پایا جاتا ہے۔

اس کے پتوں کا پچاس گرام سفوف دن بھرکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس کے لئے مزید کسی غذا مثلا گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور اس طرح ایک غریب آدمی مورنگا کے استعمال سے اپنی غذائی ضروریات سستے داموں بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ سوہانجنا کے پتوں کی افادیت دیکھتے ہوئے مختلف ممالک میں انھیں بطور غذا استعمال کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک میں اس سے انرجی ڈرنکس بنائے جا رہے ہیں۔

مورنگا وٹامن اے، بی اور سی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر آئرن(لوہا)، سلفر(گندھک)،امائنوں ایسڈ ز، میتھینین، سیسٹین،امائنوں ایسڈز کی متوازن مقدار موجود ہے۔اس کے استعمال سے حاملہ عورتوں میں خون کی کمی دور ہوتی ہے ، ان کی عمومی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ صحت مند بچوں جنم دیتی ہیں ۔سہانجنہ کے پتوں کا چھ چائے کا چمچ سفوف،حاملہ عورتوں کی روزانہ کی آئرن اور کیلشیم کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔بچوں کی پیدائش کے بعد بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگرسہانجنہ کے پتے اور شگوفے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی مقدار اور معیار دونوں میں کا فی بہتری آتی ہے۔دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش بھی ہوتا ہے۔اس سے دودھ پینے والے بچوں کی صحت بھی بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔اس مقصدکے لئے حاملہ عورتیں تین بڑے کھانے کے چمچے سانجنہ کے پتوں کا سفوف روزانہ لیں۔ایک چائے کا چمچ سہانجہ کے پتوں کا سفوف روزانہ 14 فیصد لحمیات ، 40 فیصد کیلشیم، 23 فیصد لوہا (آئرن) اور وٹامن “اے” کی کافی مقدارمہیا کرتا ہے جو ایک سے تین سال کے بچے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ عام خواتین اور مرد حضرات بھی اپنے صحت کو بہتر بنانے کے لئے اس کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ چھوٹے بچے کی بڑھوتری کے لئے اس کا استعمال بہت اہم ہے۔اگر بچوں کی خوراک میں اسے شامل کیا جائے تو نہ صرف انھیں مختلف بیماریوں سے تحفظ ملے گا بلکہ بچوں کی نشوونما بھی جلد ہوگی۔

مورنگا کی غذائی افادیت کو بیان کرنے کے لئے عموما یہ انداز اپنایا جاتا ہے کہ اس میں دودھ کے مقابلے میں سترہ گناہ زیادہ کیلشیم موجود ہوتا ہے اسی طرح دہی کے مقابلے میں9 گنا زیادہ پروٹین، گاجر کے مقابلے میں10 گناہ زیادہ وٹامن اے، وٹا من سی مالٹے کے مقابلے میں آدھا ، کیلے کے مقابلے میں پندرہ گناہ زیادہ پوٹاشیم اور پالک کے مقابلے میں25 گنا زیادہ فولاد موجود ہوتا ہے۔یاد رہے کہ یہ تقابل خشک پتوں کا ہے ، تازہ پتوں میں یہ اجزاء کم مقدار میں ہوتے ہیں یعنی خشک پتوں میں ان اجزاء کا تنا سب بڑھ جاتا ہے۔

مورنگا اولیفیرا تجارتی مقاصد کیلئے بھارت، ایتھوپیا، فلپائن اور سوڈان میں وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند ، ملایا اور فلپائین میں اس کے پھول ، تازہ پتے ، نرم پھلیاں سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ملایا میں اس کے بیج مونگ پھلی کی طرح کھائے بھی جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی پروفیسر شہزاد بسرا اس کی کاشت کے فروغ کے لئے بہت کوششیں کررہے ہیں ۔مو رنگا کے پتے مویشیوں کوبطو ر چارہ استعمال کئے جاسکتے ہیں ان کے روزانہ استعمال سے نہ صرف مویشیوں کی صحت بہتر ہوتی بلکہ ان کا وزن 32 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔اس کے استعمال سے دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ میں43سے 65 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کو بطور چارہ استعمال کرنے سے کھل بنولہ (جوکہ ایک مہنگی چیزہے)کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔چارے کے لئے اس کے درخت سےسال بھر میں 12 سے 16 دفعہ تک کاٹا جا سکتا ہے ۔سیڈ کیک بھی چارے کے لیے بنایا جا سکتا ہے۔

محققین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیج جراثیم کش اوردافع تکسید خصوصیات حامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیجوں میں یہ خاصیت پھلیوں سے نکالنے کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتی ہے اور اس وجہ اس کے لائیو فلیک عناصر ہیں۔ یہ عناصر خلوی جھلی کے ساتھ جکڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بیج جراثیم کش اثرات ، کاربکسلک ایسڈ، خلوی دیوار تباہ کرنے والے خامروں اور کائننز کی وجہ سے دافع تکسید عمل کرتے ہیں۔ اس کی پھلیوں میں کثیر مقدار میں لحمیات ، فاسفورس اور ایک معقول مقدار میں کیلشیم اور لوہا بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے تازہ پتے کیلشیم ، آئرن ، فاسفورس اور وٹامن اے ، بی اور سی پایا جاتا ہے۔اس میں امائنوایسڈ ، اومیگا تھری اور ہائی ڈینسٹی لیپوپروٹین پائی جاتی ہے۔

اس کی جڑوں میں فراری روغن پایا جاتا ہے جس کی بوتیکھی اور ناگوار ہوتی ہے ۔بیجوں میں ایک تیکھا اور چبھتا ہوا الکلائیڈ نہایت قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ان میں پائے جانے والے تیل میں پالمیٹک ، سٹریرک ، مائرسٹک، اولک اور بیہینک ایسڈزکے ساتھ ساتھ دو الکلائیڈ کا مرکب پایا جاتا ہے جن کا عمل ایپی نفرین جیسا ہوتا ہے ۔

مورنگا کے چھوٹےپتوں میں بہت سے نمو(گروتھ) بڑھانے والے عناصر پائے جاتے ہیں۔چھوٹے پودوں پر اس کے پتوں کے رس(رس برگ سہانجنہ —— مورنگا لیف ایکسٹریکٹ) کا سپرے کرنے سے ان کی نشوونما (بڑ ھوتری)نمایاں طور پرتیز ہوجاتی ہے، پودے صحت مند اور مضبوط ہو جاتے ہیں ان میں کیڑوں کے حملوں اور بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔پودے کے بڑا ہونے پرنہ صرف اس پر لگنے والے پھلوں کی پیداوار میں 20 سے35 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ پھل اور پھول کا ذائقہ اور معیار بھی بڑھتا ہے۔

رس برگ سہانجنہ اس کے تازہ پتوں کو نچوڑ کر تیار کیا جاتا ہے۔ فصلوں پر سپرے کے لئے ایک ایکڑ کے لئے 1.5 کلو گرام رس برگ سہانجنہ یا ایم ۔ایل ۔ای کافی ہوتا ہے ۔اسے 30 سے 35 گنا پانی میں ملا کر فصل کے اہم بڑھو تری کے مرحلوں پر کیا جا تا ہے۔ ایک پودے پر 25 ملی لیٹرسپرے کیا جاتا ہے۔بیجوں کو محفوظ کرنے کے لئے اسے 30 گنا پانی میں حل کرکے ، اس محلول کو پانچ گنا بیجوں میں ملایا جاتا ہے۔
مورنگا کے بیج ، پانی کی صفائی کا قدرتی اور اور محفوظ ذریعہ مورنگا کے بیجوں کا سفوف ایک پیچیدہ مرکب ہے جس میں مختلف امائنوایسڈ ز پائے جاتے ہیں ۔یہ امائنوایسڈز پانی میں موجود دھاتی آئنز کوبائنڈنگ کے ذریعے غیرمؤثر کر کے تہہ نشین کردیتے ہیں ۔ اس سفوف میں فائدہ مند بیکٹیریا ہوتے ہیں جو نقصان دہ جراثیم کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔اس طرح ان کے بیجوں کا سفوف آلودہ پانی صاف کرنے ،زہریلے مواد کو غیرمؤثر کرنے، جراثیم کے خاتمے اور دیگر کثافتوں کو زائل کرنے والی خصوصیات کا حامل ہے۔اس مقصد کے لئے بیج کا چھلکا اتار لیں اور گری کو کونڈی میں اچھی طرح پیس لیں اورکپڑے کی تھیلیوں میں پیک کر لیں ۔تھیلیوں کو پانی کے جگ میں اچھی طرح کم از کم دو منٹ تک ہلائیں ۔تھوڑی دیر بعد ایک مرتبہ پھر پانی کو دس منٹ تک ہلائیں ۔ایسا کرنے سے پانی میں موجود کیٹائنز اکٹھے ہوکر تہہ نشین ہونا شروع ہو جا ئیں گے۔ایک گھنٹہ تک پانی کو پڑا رہنے دیں جب کثافتیں اچھی طرح تہہ میں بیٹھ جائیں تو اوپر کا پانی نتھار کر کسی دوسرے برتن میں انڈیل دیں ۔دس لیٹر پانی کے لئے دو چمچ مورنگا کے بیج کا سفوف کا فی ہے۔زیادہ بہتر یہ کہ بیجوں کو دبا کربذریعہ کولہو تیل حاصل کیا جائے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کھلی یا کیک سے پانی صاف کرنے کے کام لیا جائے۔

سہانجنا کے سائیڈ ایفکٹس

مورنگا کے بیج کا پیسٹ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔پیسٹ بنانے کے لئے بیجوں کے سفوف میں کشید کیا ہوا پانی ڈالا جاتا ہے ۔ 2فیصد سسپنشن بنانے کیلیے 2گرام بیج سفوف کو 100 ملی لیٹر پانی میں ڈالیں۔ اس کو آدھا گھنٹہ میگنیٹک سٹرر سے تیزی سے ہلائیں تاکہ جمع شدہ پروٹین سے پانی الگ کیا جا سکے۔پھر واٹ مین نمبر ایک کے فلٹر پیپر سے سارا سسپینشن نتھار لیں۔سسپنشن کو استعمال کرنے سے پہلےاچھی طرح ہلائیں۔

سہانجنا Moringa مورنگا تیل

مورنگا بیجوں میں 30 سے 40 فیصد تیل موجود ہوتا ہے۔جسے بیجوں کو دبا کر(بذریعہ کولہو)حاصل کیا جا تا ہے۔مورنگا کا تیل جسے بن آئل (Ben oil)بھی کہا جاتا ہے ، زرد رنگ کا چمکدارصاف شفاف تیل ہے ۔یہ قدرتی طور پر کا فی دیرپا ہوتا ہےجو کم از کم پانچ سال تک خراب نہیں ہوتا ،یعنی اس کی شیلف لائف دیگر تیلوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔یہ نہایت طاقتور دافع تکسید (اینٹی آکسیڈینٹ )ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ جلدتکسید( آکسیڈیشن) سے متاثر نہیں ہوتا۔ دنیا میں موجود دواساز(فارما سوٹیکل)، کاسمیٹک، لبریکینٹس انڈسٹریز، آئل فیکٹریز، باِئیو ڈیزل پلانٹس اور بہت سی دیگر صنعتیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔

مورنگا کا تیل جراثیم کش، سوزش ، سوجن وغیرہ کو روکنے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔جسم اور جلد پر لگے چھوٹے موٹے زخم، کیڑوں مکوڑوں کے کاٹنے، جلنے، خارش، دانوں وغیرہ کا علاج ہے۔چہرے کی پھنسیوں ،چھائیوں، اور داغ دھبوں کا مکمل علاج ہے ۔یہ تیل چھوٹے بچوں کے پیٹ میں ہونے والے درد ، گیس وغیرہ کا بھی علاج ہے۔یہ بچوں میں اعصابی صحت اور افزائش کا بھی ذریعہ ہے۔

اس تیل کا ایروما تھراپی (خوشبو سے علاج)، چہرے کی جھریاں ختم کرنے والی،بالوں کی حفاظت اور نشونما کرنے والی کریموں ، صابن اور باڈی واش لیکیوڈ ، عطریات (پرفیوم)میں عام استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سی بیو ٹیشن کمپنیاں اب اس تیل کو جلد نرم کرنے اور موسمی اثرات سے بچانے والی موائسچرائزنگ کریموں میں استعمال کرنے لگی ہیں۔یہ جسم اور بالوں کی صحت اور نمی برقرار ر کھنے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔

مورنگا کا تیل بے بو اور ذائقہ میں انتہائی مزیدار ہونے کی وجہ سے اس کی پکانے کی صلاحیت زیتون کے تیل کے مشابہ ہے۔یہ فوڈ انڈسٹری میں پریزرویٹوز (محفوظ کرنے والا)کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
مورنگا گوند :

دیگر استعمالات :
دوسرے پودوں کی نسبت مورنگا سے میعاری اور زیادہ مقدارمیں تیل نکلتا ہے جسے پروسیس کرنے کی قیمت بہت کم ہے۔اس سے اچھی کوالٹی اور گریڈ کا بائیو ڈیزل اور اور گلیسرین کے مرکبات حاصل ہوتے ہیں۔مورنگا کے تیل سے تیار شدہ بائیو ڈیزل(پودوں سے حاصل ڈیزل)، ایک بہترین بائیوڈیزل خصوصیات کا حامل ہے کیونکہ آکسیڈیشن سے محفوظ ہونے کی وجہ سے دوسرے ذرائع سے تیار ہونے دالے بائیوڈیزل سے کئی گنا دیر پا ہوتا ہے۔مورنگا بائیو ڈیزل 70 فیصد سے زیادہ اولیک ایسڈ رکھتا ہے جس میں سیر شدہ فیٹی ایسڈز کی کافی تعداد ہوتی ہے۔میتھائل ایسٹرز (بائیو ڈیزل) جو مورنگا تیل سے حاصل ہوتا ہے اس میں سی ٹین (پٹرولیم میں پایا جانے والا ہائیڈروکاربن) کا نمبر 67 سے زیادہ ہے جو باقی ذرائع سے حاصل ہونے والے بائیوڈیزل سے بہت زیادہ ہے۔

حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات (بائیو پیسٹی سائیڈز)
کیمیائی طور پر تیار شدہ کیٹرے مار ادویات کے بے دریغ استعمال سے بہت ساری حیاتیاتی اور ماحولیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ان کے استعمال سے بعض خطرناک اور مہلک قسم کی انسانی اور جانوروں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کیڑوں میں ادویات کے خلاف دن بدن بڑھتی قوت مدافعت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔پودوں سے حاصل کیے جانے والے حیاتیاتی مرکبات اور کشید کردہ آمیزے ماحولیاتی اور حیاتیاتی طور پر بہت ہی محفوظ ہیں۔ انہیں کیڑوں مکوڑوں کو مارنے یا بھگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کیمیائی کیٹرے مار ادویات کے خطرناک نتائج سے تنگ آکر حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات کو اپنا رہی ہے۔ان کیٹرے مار ادویات میں مورنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مورنگا کا سفوف دانے دار اجناس کے کیڑے کھپرا [ٹروگو ڈرما گرینیریم] کے لاروے اور جوان دونوں کو مار بھگانے کا کام کرتا ہے۔

مورنگا درخت لگانے کا صحیح طریقہ

اسے بیجوں اور قلموں کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔
قلموں سے افزائش
مورنگا کی شاخیں کم سے کم ایک انچ موٹی اور چھ فٹ لمبی شاخیں کاٹ لیں۔تین فٹ لمبائی اور تین فٹ چوڑائی کا گڑھا کھود لیں۔کٹی ہوئی شاخ کو اس گڑھے میں رکھیں اور زرخیز مٹی، اور گلی سڑی روڑی کے ساتھ پور دیں۔خیال رکھیں کہ شاخ کی بنیاد کو مٹی سے اچھی طرح دبا دیا گیا ہے اور شاخ سے نیچے سے اوپر ایک گنبد نما سی شکل بنا دی گئی ہے۔پانی دیتے وقت خیال رکھیں کی نئے نکلنے والے تنے کو پانی نہ چھوئے اور نہ ہی ہی شاخ ڈوبنے پائے

بیج سے افزائش
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھو دیں اور اس گڑھے کو دوبارہ ہلکی اور نرم مٹی سے پور دیں۔سبز گوبر کی کھاد اور گلی سڑی روڑی پودے کو پھلنے پھولنے میں بہتر مدد دے گی اور مورنگا کا پودا ہلکی سے ہلکی زمین میں بھی اگ آئے گا۔ہر گڑھے میں تین سے پانچ بیج لگائے جائیں جو کم از کم ڈیڑھ سے دو انچ کی گہرائی پر ہوں۔مٹی کو کچھ گیلا رکھیں مگر اتنا نہ ہو کہ بیج ڈوب کر گل سڑ جا ئیں۔جب نئے ننھے پودے چا ر سے چھ انچ کے ہو جائیں تو صرف صحت مند پودے رہنے دیں اور باقی تلف کر دیں۔نئے پودوں کو “زرد چیونٹیاں” (ٹرمائٹس) سے اور زمینی کیڑوں مکوڑوں (نیما ٹوڈز) سے بچاِئیں یہ دونوں ان کے لیے خطرناک ہیں۔

پلاسٹک کے تھیلوں میں
تھیلوں کو ہلکی قسم کی مٹی (تین حصے مٹی ، ایک حصہ ریت) سے بھر لیں۔ہر بیگ میں دو سے تین بیج، 4/1 انچ گہرائی میں بو دیں۔تھیلوں کو گیلا رکھیں مگر بہت زیادہ نہیں ورنہ بیج مر جائیں گے۔دو ہفتوں میں بیج اگ آئیں گے۔ہر تھیلے میں ایک صحت مند بیج رہنے دیں باقی تلف کر دیں۔چھوٹے پودے جب دو سے تین ہفتوں کے ہو جائیں تو ان کو کھیت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

کھیت میں منتقلی (ٹرانسپلانٹنگ)
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھودیں اور اس کو دوبارہ مٹی اور سبز کھاد کے ساتھ بھر دیں۔ان گڑھوں کو ایک دن پودا منتقل کرنے سے پہلے پانی لگا دیں۔دوپہر کے بعد تقریباً عصر کے وقت پودے کو منتقل کر یں تاکہ پودا گرمی سے فی الوقت بچ جا ئے۔پودے کی بنیاد کو مٹی سے بھر دیں۔کچھ دنوں کے لیے صرف ہلکا پانی دیں۔

استفادہ : متعدد کتب اور ویب سائٹس

ٹونگ کٹ علی

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version