سہانجنا Moringa
مورنگا ( سہانجنہ) کرشماتی پودا
مورنگا کاتعارف
اور: مورنگا پٹیروگاسپرما
Botanical Name: Moringa pterygosperma Gaertn.de.Fruct
خاندان : مورنگیسی
Family:Moringaceae
انگریزی نام: ہارس ریڈش ٹری
Horse raddish tree
دیسی نام: سوہانجنا Sohanjana
ابتدائی مسکن(ارتقائ): پاکستان اور سب ہمالیہ۔اور راولپنڈی میں پایاجاتا ہے۔
قسم: پت جھاڑ
قد: 10-12 میٹر
پتے : مرکب ہیں70-30 سینٹی میٹر لمبے،پتیاں سیدھی ہیں اور چھال مڑی ہوئی ہے ۔
پھولوں کا رنگ: سفید ، پھول آنے کا وقت: فروری اور اپریل۔پھول 2.4 سینٹی میٹر لمبے اور شہد کی خوشبو جیسے،لمبی پینسل کی طرح
پھل : پھل لمبا اور کیپسول کی طرح 50-25 سینٹی میٹر لمبا۔بیج اگست میں پکتا ہے اور 2.4 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔
مزاج ۔
سہانجنا Moringa ایک جائزہ
سہانجنا Moringa کی غذائی اہمیت
دل کی بیماری ٹھیک ہو گئی
طبی لحاظ سے سہانجنا Moringa مورنگا کی اہمیت۔
یہ بھی دیکھیں: سہانجنا کے سائیڈ ایفکٹس
کاشت
کاشت بذریعہ قلم
سہانجنا Moringa کی کاشت بذریع بیج
چارے کی فصل کیلئے سہانجنا Moringa کی کا شت
سہانجنا Moringa کی کاشت اور فوائد
سہانجنہ کے درخت کو اگر بڑھنے دیا جائے 10 سے 12 میٹر(32 سے 40 فٹ 20فٹ)تک بلند اور1.5 فٹ تک موٹاہو سکتا ہے۔اس کا تنا 4 سے 5 فٹ تک سیدھا جاتا ہے ،پھر اس کی شاخیں نکلتی ہیں ۔اس کی ہر شاخ پر کئی چھوٹی شاخیں لگی ہوتی ہیں ۔تنے کی چھال ملائم اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کے پتے عموما 25 سے 50 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں اس کے پھول سفید رنگ کے ، خوشبوداراور 1.5 سے 2 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں ۔ اس کی پھلیاں 15 سے 30 ملی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔اس کے بیج سہ گوشہ ہوتے ہیں۔ سوہانجنہ کی لکڑی بہت نرم و نازک اور جلد ٹوٹنے والی ہوتی ہے ۔ماہ فروری میں اس درخت پر گچھوں کی شکل میں سفید رنگ کے پھول بکثرت لگتے ہیں اور مارچ تک یہ درخت پتلی پتلی گول اور لمبی پھلیوں سے لد جاتا ہے۔اس کے بیج بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں اس کی ان کھلی کلیاں ، کچنار کی کی طرح پکا کر بہت شوق سے کھائی جاتی ہیں ۔یہ پھلیاں گوشت میں ڈال کر پکائی بھی جاتی ہیں ۔اس کا پودا جب ایک یا دو سال کا ہوتا ہے تب اس کی جڑ بے ریشہ ، سفید رنگ کی مولی کی طرح مخروطی شکل کی ہوتی ہے۔ ان جڑوں(جنہیں سہانجنہ کی مولی کہا جاتا ہے ) کو نکال کر اچار ڈالا جاتا ہے جوملک کے دیگر علاقوں خصوصا پنجاب بھر میں کافی معروف ہے۔یہ اچار بلغمی امراض میں مفید ہے۔ پیشاب آور ہے اور پتھری کو توڑتا ہے۔سہانجنے کی جڑوں کے علاوہ اس کی پھلیوں کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے ۔کچھ علاقوں میں اس کے پھولوں کا اچار بھی ڈالتے ہیں یہ اچارمقوی معدہ ہے ، پیٹ کی ریاح (گیس) کے لئے مفید ہے۔
یہ چونکہ یہاں کا مقامی پودا ہے اس لئے اسے مختلف امراض میں بطور علاج بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ دیسی طریقہ علاج جسے عرف عام میں طب یونانی کہا جاتا ہے ، میں یہ طبی طور پر زیادہ معروف نہیں ، البتہ ایورویدک میں اسے کافی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کا طبی استعمال کافی محدود ہے ۔
اس درخت کی چھال کا سفوف استسقاء، نوبتی بخاروں ،مرگی ، اختناق الرحم(ہسٹریا) ، فالج ، پرانا گنٹھیا، ورم جگر وطحال اور بدہضمی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس درخت کی چھال یا اس کی جڑ کی چھال کا جوشاندہ یا اس کی تازہ جڑ کا رس بھی جگر کی خرابی سے پیدا ہونے والے استسقاء (پیٹ اور پھیپھڑوں میں پانی پڑنا)میں مستعمل ہے۔اس جوشاندہ سے غرارے کرنے سے منہ کے چھالوں ، مسوڑوں کے درد میں آرام آتا ہے۔اس کے بیج بھی استسقاء استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بیجوں کا تیل نقرس اور گنٹھیا کے علاج میں بطور مالش استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پھول بعض اوقات دودھ میں پکا کربطور مقوی باہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ان پھولوں کا رس دودھ کے ساتھ دافع سنگ مثانہ (مثانہ کی پتھری) اور مقوی معدہ ہے۔دمہ میں بھی ان پھولوں کا استعمال مفید ہے—— اس کی چھال میں سے ریشے بھی نکلتے ہیں جن سے چٹایا ں ، کاغذ ، اور رسے بنتے ہیں۔ اس کے بیجوں کا تیل مشینری کے پرزوں میں بطور لبریکنٹ استعمال ہوتا ہے ۔ گھڑی ساز عموما یہی تیل گھڑیوں کے پرزوں کے رواں رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔(ماخذ پاک و ہند کی جڑی بوٹیاں – حکیم صوفی لچھمن پرشاد)
دنیا کے دیگر علاقوں اور ممالک میں بھی یہ طبی طور پر مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہوتا ہے ۔جدید تحقیقات سے ان روایتی طریق علاج کی نہ صرف تائید ہوئی بلکہ کچھ نئی خصوصیات بھی سامنے آئی ہیں مثلا شیرافزا ہونے کی وجہ دودھ پلانے والی ماؤں میں اس کا استعمال دودھ کی کمی کو پورا کرتا ہے ۔تازہ پتے ابال کر شیرافزا کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں وٹامن سی کا حامل ہونے کی وجہ سے یہ دافع سکروی ہے ۔غدہ درقیہ کی زیادتی کو ختم کرنے اور مانع حمل خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں اس کے پتوں کا چبانا سوزاک میں پیشاب کے بہاؤ کو بڑھانے کے لئے مفید ہے۔اس کے پتوں کا پلٹس (ضماد)غدودوں کی سوجن دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔مانع تکسید ہونے کی وجہ سے عمررسیدگی (بڑھاپا) کے اثرات کو زائل کرتا ہے اور دافع تکسید مرکبات کی موجودگی اسےسرطان میں مفیدبناتی ہے۔یہ کولیسٹرول کوختم کرکے بلڈپریشر کوکم کرتا ہے ۔بلڈپریشرکم ہونے سے اس کی وجہ سے ہونے والے سردرد ، درد شقیقہ میں نافع ہے۔ دافع شوگر خصوصیات کی وجہ یہ ذیابیطس میں مفید ہے۔ اس کے پتے ذرا بھون کرناریل کے تیل میں ملا کر زخموں پر لگائے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں اس کی جڑیں ابال کر سوجن پر بطور پلٹس استعمال کرتے ہیں۔یہ پیشاب آور ، دافع تشنج ، دافع السرخصوصیات کی حامل بھی ہے ۔تازہ جڑ پیشاب آور ہے۔ حیض آور اور مسقط رحم ہے ۔اس کی جڑیں اسقاط حمل میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس لئے حاملہ عورتوں کو اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔یہ ضدحیوی (اینٹی بائیوٹک) دافع پھپھوند، دافع سوزش خصوصیات کی وجہ سے زخموں اور ہر قسم کی سوزشوں میں کو ختم کرتی ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ زخموں اور قروح کو دھونے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ گلے کی دکھن میں استعمال کیا جاتا ہے
نگاراگوا میں اس کی جڑوں کا جوشاندہ استسقاء میں استعمال ہوتا ہے۔مسہل ہونے کی وجہ سے اس کے پتے قبض کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔پھلیاں۔ جوڑوں کے درد میں مفید ہے ۔اس کی جڑوں کا رس دودھ میں ڈال کر پینے سے دمہ، ہچکی ، گنٹھیا اور درد کمر(چک) میں فائدہ ہوتا ہے۔۔ آنتوں کے کیڑوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔دافع تشنج ہونے کی وجہ سےاس کی جڑوں کی چھال کا جوشاندہ کی ٹکور تشنج رفع کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی گوند بھی مسقط حمل ہے۔گوندتل کے تیل کے ساتھ کانوں کے درد میں استعمال ہوتی ہے۔ جڑوں کا رس بھی کان درد میں استعمال ہوتا ہے۔جاوا میں اس کی گوند آنتوں کے امراض میں استعمال ہوتی ہے۔جمیکا میں اس کی لکڑی نیلا رنگ دینے کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ اس کےبیج گنٹھیا۔ دمہ، بلند فشار خون، ہچکی میں مفید ہیں اور پیشاب آور ہیں
مورنگا کے پتوں کی غذائی خصوصیات(جدید تحقیق)
مورنگا کے چھوٹے پتے بطور سلاد اورپالک اورمیتھی کے ساتھ ملا کر بطور سبزی پکا کر استعمال کیے جاسکتے ہیں-اس کے پتے غذائی قلت کا بہترین حل ہے۔ان کے تازہ پتوں کا سوپ بھی تیار کیا جاتا ہے۔100 گرام پکائے ہوئے پتوں میں 3.1 گرام لحمیات ، 0.6 گرام فائبر، 96 ملی گرام کیلشیم ، 29 ملی گرام فاسفورش ، 1.7 ملی گرام لوہا ، 2820 ملی گرام بیٹا کیروٹین ، 0.07 ملی گرام تھایامین ، 0.14 ملی گرام رائبوفلیون ، 1.1 ملی گرام نیاسین، اور 53 ملی گرام وٹامن سی پایا جاتا ہے۔
اس کے پتوں کا پچاس گرام سفوف دن بھرکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس کے لئے مزید کسی غذا مثلا گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور اس طرح ایک غریب آدمی مورنگا کے استعمال سے اپنی غذائی ضروریات سستے داموں بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ سوہانجنا کے پتوں کی افادیت دیکھتے ہوئے مختلف ممالک میں انھیں بطور غذا استعمال کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک میں اس سے انرجی ڈرنکس بنائے جا رہے ہیں۔
مورنگا وٹامن اے، بی اور سی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر آئرن(لوہا)، سلفر(گندھک)،امائنوں ایسڈ ز، میتھینین، سیسٹین،امائنوں ایسڈز کی متوازن مقدار موجود ہے۔اس کے استعمال سے حاملہ عورتوں میں خون کی کمی دور ہوتی ہے ، ان کی عمومی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ صحت مند بچوں جنم دیتی ہیں ۔سہانجنہ کے پتوں کا چھ چائے کا چمچ سفوف،حاملہ عورتوں کی روزانہ کی آئرن اور کیلشیم کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔بچوں کی پیدائش کے بعد بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگرسہانجنہ کے پتے اور شگوفے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی مقدار اور معیار دونوں میں کا فی بہتری آتی ہے۔دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش بھی ہوتا ہے۔اس سے دودھ پینے والے بچوں کی صحت بھی بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔اس مقصدکے لئے حاملہ عورتیں تین بڑے کھانے کے چمچے سانجنہ کے پتوں کا سفوف روزانہ لیں۔ایک چائے کا چمچ سہانجہ کے پتوں کا سفوف روزانہ 14 فیصد لحمیات ، 40 فیصد کیلشیم، 23 فیصد لوہا (آئرن) اور وٹامن “اے” کی کافی مقدارمہیا کرتا ہے جو ایک سے تین سال کے بچے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ عام خواتین اور مرد حضرات بھی اپنے صحت کو بہتر بنانے کے لئے اس کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ چھوٹے بچے کی بڑھوتری کے لئے اس کا استعمال بہت اہم ہے۔اگر بچوں کی خوراک میں اسے شامل کیا جائے تو نہ صرف انھیں مختلف بیماریوں سے تحفظ ملے گا بلکہ بچوں کی نشوونما بھی جلد ہوگی۔
مورنگا کی غذائی افادیت کو بیان کرنے کے لئے عموما یہ انداز اپنایا جاتا ہے کہ اس میں دودھ کے مقابلے میں سترہ گناہ زیادہ کیلشیم موجود ہوتا ہے اسی طرح دہی کے مقابلے میں9 گنا زیادہ پروٹین، گاجر کے مقابلے میں10 گناہ زیادہ وٹامن اے، وٹا من سی مالٹے کے مقابلے میں آدھا ، کیلے کے مقابلے میں پندرہ گناہ زیادہ پوٹاشیم اور پالک کے مقابلے میں25 گنا زیادہ فولاد موجود ہوتا ہے۔یاد رہے کہ یہ تقابل خشک پتوں کا ہے ، تازہ پتوں میں یہ اجزاء کم مقدار میں ہوتے ہیں یعنی خشک پتوں میں ان اجزاء کا تنا سب بڑھ جاتا ہے۔
مورنگا اولیفیرا تجارتی مقاصد کیلئے بھارت، ایتھوپیا، فلپائن اور سوڈان میں وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند ، ملایا اور فلپائین میں اس کے پھول ، تازہ پتے ، نرم پھلیاں سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ملایا میں اس کے بیج مونگ پھلی کی طرح کھائے بھی جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی پروفیسر شہزاد بسرا اس کی کاشت کے فروغ کے لئے بہت کوششیں کررہے ہیں ۔مو رنگا کے پتے مویشیوں کوبطو ر چارہ استعمال کئے جاسکتے ہیں ان کے روزانہ استعمال سے نہ صرف مویشیوں کی صحت بہتر ہوتی بلکہ ان کا وزن 32 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔اس کے استعمال سے دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ میں43سے 65 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کو بطور چارہ استعمال کرنے سے کھل بنولہ (جوکہ ایک مہنگی چیزہے)کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔چارے کے لئے اس کے درخت سےسال بھر میں 12 سے 16 دفعہ تک کاٹا جا سکتا ہے ۔سیڈ کیک بھی چارے کے لیے بنایا جا سکتا ہے۔
محققین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیج جراثیم کش اوردافع تکسید خصوصیات حامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیجوں میں یہ خاصیت پھلیوں سے نکالنے کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتی ہے اور اس وجہ اس کے لائیو فلیک عناصر ہیں۔ یہ عناصر خلوی جھلی کے ساتھ جکڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بیج جراثیم کش اثرات ، کاربکسلک ایسڈ، خلوی دیوار تباہ کرنے والے خامروں اور کائننز کی وجہ سے دافع تکسید عمل کرتے ہیں۔ اس کی پھلیوں میں کثیر مقدار میں لحمیات ، فاسفورس اور ایک معقول مقدار میں کیلشیم اور لوہا بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے تازہ پتے کیلشیم ، آئرن ، فاسفورس اور وٹامن اے ، بی اور سی پایا جاتا ہے۔اس میں امائنوایسڈ ، اومیگا تھری اور ہائی ڈینسٹی لیپوپروٹین پائی جاتی ہے۔
اس کی جڑوں میں فراری روغن پایا جاتا ہے جس کی بوتیکھی اور ناگوار ہوتی ہے ۔بیجوں میں ایک تیکھا اور چبھتا ہوا الکلائیڈ نہایت قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ان میں پائے جانے والے تیل میں پالمیٹک ، سٹریرک ، مائرسٹک، اولک اور بیہینک ایسڈزکے ساتھ ساتھ دو الکلائیڈ کا مرکب پایا جاتا ہے جن کا عمل ایپی نفرین جیسا ہوتا ہے ۔
مورنگا کے چھوٹےپتوں میں بہت سے نمو(گروتھ) بڑھانے والے عناصر پائے جاتے ہیں۔چھوٹے پودوں پر اس کے پتوں کے رس(رس برگ سہانجنہ —— مورنگا لیف ایکسٹریکٹ) کا سپرے کرنے سے ان کی نشوونما (بڑ ھوتری)نمایاں طور پرتیز ہوجاتی ہے، پودے صحت مند اور مضبوط ہو جاتے ہیں ان میں کیڑوں کے حملوں اور بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔پودے کے بڑا ہونے پرنہ صرف اس پر لگنے والے پھلوں کی پیداوار میں 20 سے35 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ پھل اور پھول کا ذائقہ اور معیار بھی بڑھتا ہے۔
رس برگ سہانجنہ اس کے تازہ پتوں کو نچوڑ کر تیار کیا جاتا ہے۔ فصلوں پر سپرے کے لئے ایک ایکڑ کے لئے 1.5 کلو گرام رس برگ سہانجنہ یا ایم ۔ایل ۔ای کافی ہوتا ہے ۔اسے 30 سے 35 گنا پانی میں ملا کر فصل کے اہم بڑھو تری کے مرحلوں پر کیا جا تا ہے۔ ایک پودے پر 25 ملی لیٹرسپرے کیا جاتا ہے۔بیجوں کو محفوظ کرنے کے لئے اسے 30 گنا پانی میں حل کرکے ، اس محلول کو پانچ گنا بیجوں میں ملایا جاتا ہے۔
مورنگا کے بیج ، پانی کی صفائی کا قدرتی اور اور محفوظ ذریعہ مورنگا کے بیجوں کا سفوف ایک پیچیدہ مرکب ہے جس میں مختلف امائنوایسڈ ز پائے جاتے ہیں ۔یہ امائنوایسڈز پانی میں موجود دھاتی آئنز کوبائنڈنگ کے ذریعے غیرمؤثر کر کے تہہ نشین کردیتے ہیں ۔ اس سفوف میں فائدہ مند بیکٹیریا ہوتے ہیں جو نقصان دہ جراثیم کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔اس طرح ان کے بیجوں کا سفوف آلودہ پانی صاف کرنے ،زہریلے مواد کو غیرمؤثر کرنے، جراثیم کے خاتمے اور دیگر کثافتوں کو زائل کرنے والی خصوصیات کا حامل ہے۔اس مقصد کے لئے بیج کا چھلکا اتار لیں اور گری کو کونڈی میں اچھی طرح پیس لیں اورکپڑے کی تھیلیوں میں پیک کر لیں ۔تھیلیوں کو پانی کے جگ میں اچھی طرح کم از کم دو منٹ تک ہلائیں ۔تھوڑی دیر بعد ایک مرتبہ پھر پانی کو دس منٹ تک ہلائیں ۔ایسا کرنے سے پانی میں موجود کیٹائنز اکٹھے ہوکر تہہ نشین ہونا شروع ہو جا ئیں گے۔ایک گھنٹہ تک پانی کو پڑا رہنے دیں جب کثافتیں اچھی طرح تہہ میں بیٹھ جائیں تو اوپر کا پانی نتھار کر کسی دوسرے برتن میں انڈیل دیں ۔دس لیٹر پانی کے لئے دو چمچ مورنگا کے بیج کا سفوف کا فی ہے۔زیادہ بہتر یہ کہ بیجوں کو دبا کربذریعہ کولہو تیل حاصل کیا جائے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کھلی یا کیک سے پانی صاف کرنے کے کام لیا جائے۔
مورنگا کے بیج کا پیسٹ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔پیسٹ بنانے کے لئے بیجوں کے سفوف میں کشید کیا ہوا پانی ڈالا جاتا ہے ۔ 2فیصد سسپنشن بنانے کیلیے 2گرام بیج سفوف کو 100 ملی لیٹر پانی میں ڈالیں۔ اس کو آدھا گھنٹہ میگنیٹک سٹرر سے تیزی سے ہلائیں تاکہ جمع شدہ پروٹین سے پانی الگ کیا جا سکے۔پھر واٹ مین نمبر ایک کے فلٹر پیپر سے سارا سسپینشن نتھار لیں۔سسپنشن کو استعمال کرنے سے پہلےاچھی طرح ہلائیں۔
سہانجنا Moringa مورنگا تیل
مورنگا بیجوں میں 30 سے 40 فیصد تیل موجود ہوتا ہے۔جسے بیجوں کو دبا کر(بذریعہ کولہو)حاصل کیا جا تا ہے۔مورنگا کا تیل جسے بن آئل (Ben oil)بھی کہا جاتا ہے ، زرد رنگ کا چمکدارصاف شفاف تیل ہے ۔یہ قدرتی طور پر کا فی دیرپا ہوتا ہےجو کم از کم پانچ سال تک خراب نہیں ہوتا ،یعنی اس کی شیلف لائف دیگر تیلوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔یہ نہایت طاقتور دافع تکسید (اینٹی آکسیڈینٹ )ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ جلدتکسید( آکسیڈیشن) سے متاثر نہیں ہوتا۔ دنیا میں موجود دواساز(فارما سوٹیکل)، کاسمیٹک، لبریکینٹس انڈسٹریز، آئل فیکٹریز، باِئیو ڈیزل پلانٹس اور بہت سی دیگر صنعتیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔
مورنگا کا تیل جراثیم کش، سوزش ، سوجن وغیرہ کو روکنے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔جسم اور جلد پر لگے چھوٹے موٹے زخم، کیڑوں مکوڑوں کے کاٹنے، جلنے، خارش، دانوں وغیرہ کا علاج ہے۔چہرے کی پھنسیوں ،چھائیوں، اور داغ دھبوں کا مکمل علاج ہے ۔یہ تیل چھوٹے بچوں کے پیٹ میں ہونے والے درد ، گیس وغیرہ کا بھی علاج ہے۔یہ بچوں میں اعصابی صحت اور افزائش کا بھی ذریعہ ہے۔
اس تیل کا ایروما تھراپی (خوشبو سے علاج)، چہرے کی جھریاں ختم کرنے والی،بالوں کی حفاظت اور نشونما کرنے والی کریموں ، صابن اور باڈی واش لیکیوڈ ، عطریات (پرفیوم)میں عام استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سی بیو ٹیشن کمپنیاں اب اس تیل کو جلد نرم کرنے اور موسمی اثرات سے بچانے والی موائسچرائزنگ کریموں میں استعمال کرنے لگی ہیں۔یہ جسم اور بالوں کی صحت اور نمی برقرار ر کھنے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔
مورنگا کا تیل بے بو اور ذائقہ میں انتہائی مزیدار ہونے کی وجہ سے اس کی پکانے کی صلاحیت زیتون کے تیل کے مشابہ ہے۔یہ فوڈ انڈسٹری میں پریزرویٹوز (محفوظ کرنے والا)کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
مورنگا گوند :
دیگر استعمالات :
دوسرے پودوں کی نسبت مورنگا سے میعاری اور زیادہ مقدارمیں تیل نکلتا ہے جسے پروسیس کرنے کی قیمت بہت کم ہے۔اس سے اچھی کوالٹی اور گریڈ کا بائیو ڈیزل اور اور گلیسرین کے مرکبات حاصل ہوتے ہیں۔مورنگا کے تیل سے تیار شدہ بائیو ڈیزل(پودوں سے حاصل ڈیزل)، ایک بہترین بائیوڈیزل خصوصیات کا حامل ہے کیونکہ آکسیڈیشن سے محفوظ ہونے کی وجہ سے دوسرے ذرائع سے تیار ہونے دالے بائیوڈیزل سے کئی گنا دیر پا ہوتا ہے۔مورنگا بائیو ڈیزل 70 فیصد سے زیادہ اولیک ایسڈ رکھتا ہے جس میں سیر شدہ فیٹی ایسڈز کی کافی تعداد ہوتی ہے۔میتھائل ایسٹرز (بائیو ڈیزل) جو مورنگا تیل سے حاصل ہوتا ہے اس میں سی ٹین (پٹرولیم میں پایا جانے والا ہائیڈروکاربن) کا نمبر 67 سے زیادہ ہے جو باقی ذرائع سے حاصل ہونے والے بائیوڈیزل سے بہت زیادہ ہے۔
حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات (بائیو پیسٹی سائیڈز)
کیمیائی طور پر تیار شدہ کیٹرے مار ادویات کے بے دریغ استعمال سے بہت ساری حیاتیاتی اور ماحولیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ان کے استعمال سے بعض خطرناک اور مہلک قسم کی انسانی اور جانوروں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کیڑوں میں ادویات کے خلاف دن بدن بڑھتی قوت مدافعت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔پودوں سے حاصل کیے جانے والے حیاتیاتی مرکبات اور کشید کردہ آمیزے ماحولیاتی اور حیاتیاتی طور پر بہت ہی محفوظ ہیں۔ انہیں کیڑوں مکوڑوں کو مارنے یا بھگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کیمیائی کیٹرے مار ادویات کے خطرناک نتائج سے تنگ آکر حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات کو اپنا رہی ہے۔ان کیٹرے مار ادویات میں مورنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مورنگا کا سفوف دانے دار اجناس کے کیڑے کھپرا [ٹروگو ڈرما گرینیریم] کے لاروے اور جوان دونوں کو مار بھگانے کا کام کرتا ہے۔
مورنگا درخت لگانے کا صحیح طریقہ
اسے بیجوں اور قلموں کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔
قلموں سے افزائش
مورنگا کی شاخیں کم سے کم ایک انچ موٹی اور چھ فٹ لمبی شاخیں کاٹ لیں۔تین فٹ لمبائی اور تین فٹ چوڑائی کا گڑھا کھود لیں۔کٹی ہوئی شاخ کو اس گڑھے میں رکھیں اور زرخیز مٹی، اور گلی سڑی روڑی کے ساتھ پور دیں۔خیال رکھیں کہ شاخ کی بنیاد کو مٹی سے اچھی طرح دبا دیا گیا ہے اور شاخ سے نیچے سے اوپر ایک گنبد نما سی شکل بنا دی گئی ہے۔پانی دیتے وقت خیال رکھیں کی نئے نکلنے والے تنے کو پانی نہ چھوئے اور نہ ہی ہی شاخ ڈوبنے پائے
بیج سے افزائش
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھو دیں اور اس گڑھے کو دوبارہ ہلکی اور نرم مٹی سے پور دیں۔سبز گوبر کی کھاد اور گلی سڑی روڑی پودے کو پھلنے پھولنے میں بہتر مدد دے گی اور مورنگا کا پودا ہلکی سے ہلکی زمین میں بھی اگ آئے گا۔ہر گڑھے میں تین سے پانچ بیج لگائے جائیں جو کم از کم ڈیڑھ سے دو انچ کی گہرائی پر ہوں۔مٹی کو کچھ گیلا رکھیں مگر اتنا نہ ہو کہ بیج ڈوب کر گل سڑ جا ئیں۔جب نئے ننھے پودے چا ر سے چھ انچ کے ہو جائیں تو صرف صحت مند پودے رہنے دیں اور باقی تلف کر دیں۔نئے پودوں کو “زرد چیونٹیاں” (ٹرمائٹس) سے اور زمینی کیڑوں مکوڑوں (نیما ٹوڈز) سے بچاِئیں یہ دونوں ان کے لیے خطرناک ہیں۔
پلاسٹک کے تھیلوں میں
تھیلوں کو ہلکی قسم کی مٹی (تین حصے مٹی ، ایک حصہ ریت) سے بھر لیں۔ہر بیگ میں دو سے تین بیج، 4/1 انچ گہرائی میں بو دیں۔تھیلوں کو گیلا رکھیں مگر بہت زیادہ نہیں ورنہ بیج مر جائیں گے۔دو ہفتوں میں بیج اگ آئیں گے۔ہر تھیلے میں ایک صحت مند بیج رہنے دیں باقی تلف کر دیں۔چھوٹے پودے جب دو سے تین ہفتوں کے ہو جائیں تو ان کو کھیت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
کھیت میں منتقلی (ٹرانسپلانٹنگ)
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھودیں اور اس کو دوبارہ مٹی اور سبز کھاد کے ساتھ بھر دیں۔ان گڑھوں کو ایک دن پودا منتقل کرنے سے پہلے پانی لگا دیں۔دوپہر کے بعد تقریباً عصر کے وقت پودے کو منتقل کر یں تاکہ پودا گرمی سے فی الوقت بچ جا ئے۔پودے کی بنیاد کو مٹی سے بھر دیں۔کچھ دنوں کے لیے صرف ہلکا پانی دیں۔
استفادہ : متعدد کتب اور ویب سائٹس